خلاصہ: اسباب و وسائل کی کثرت سے فراہمی سے انسان یہ نہ سمجھ لے کہ اب سب کچھ اس کے اپنے قبضہ میں ہے۔ ہر چیز ہر لحاظ سے ہر وقت، اللہ تعالیٰ کے اذن کی تابعدار ہے۔
جب گہری نظر سے اسباب و وسائل کو دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ نہ صرف مال کی کثرت، بلکہ تمام مادی اسباب و وسائل کی کثرت اور فراہمی انسان کی حقیقی خوشی کا باعث نہیں بن سکتی، کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ اسباب کو اذن نہ دے تو کوئی چیز بھی انسان کے کام نہیں آسکتی، لہذا جو کچھ اِس وقت انسان کے کام آرہا ہے اور انسان ان چیزوں سے فائدہ حاصل کررہا ہے درحقیقت اللہ تعالیٰ ان چیزوں کو اذن دے رہا ہے۔
مثال کے طور پر آنکھیں دیکھ رہی ہیں تو ایسا نہیں ہے کہ آدمی سمجھے کہ آنکھوں نے تو ہر حال میں دیکھنا ہی ہے! نہیں، آنکھوں نے ہر حال میں نہیں دیکھنا ہوتا، آنکھیں صرف اس وقت دیکھ سکتی ہیں جب اللہ تعالیٰ انہیں دیکھنے کا اذن دیتا ہے۔ اسی لیے جب آدمی پر نیند غالب ہوجاتی ہے تو جاگتے رہنے کی جتنی کوشش کرتا ہے، آنکھوں کے کھلے رہنے کے لئے جتنا اپنے اوپر قابو ڈالتا ہے، مختلف چیزوں میں مصروف ہوکر بیدار رہنے کی کوشش کرتا ہے، تو بالآخر نیند اس کو مکمل طور پر سلا دیتی ہے، نہ آدمی کی آنکھیں آدمی کی تابعداری کرتی ہیں اور نہ مختلف چیزیں انسان کی نیند کا زیادہ مقابلہ کرسکتی ہیں، بلکہ نیند کیونکہ بتدریج اور رفتہ رفتہ آتی ہے تو جتنی انسان پر غالب ہوتی جائے گی اتنے ہی انسان کے جسمانی اعضا کام سے رکتے جائیں گے اور بیرونی اسباب سے بھی انسان کا رابطہ بند ہوتا جائے گا، یہاں تک کہ نہ اندر سے اپنے ذہن کی کوئی خوشی انسان کو جگا سکتی ہے اور نہ باہر کا کوئی شور و غل اس کی غالب ہوتی ہوئی نیند کو روک سکتا ہے۔
یہ نظامِ کائنات میں سے صرف ایک مثال تھی، اس سے واضح ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے اور چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیز اللہ تعالیٰ کے اذن کی تابعدار ہے۔ لہذا انسان یہ نہ سمجھے کہ وسائل و اسباب اس کے مسائل کو حل کرتے ہیں، وہ تو خود اللہ کے اذن کے تابعدار ہیں۔ حضرت امام سجاد (علیہ السلام) صحیفہ سجادیہ کی ساتویں دعا میں بیان فرماتے ہیں: "وَ تَسَبَّبَتْ بِلُطْفِكَ الْاَسْبابُ "، "اور اسباب تیرے لطف (و کرم) کے ذریعے فراہم ہوتے ہیں۔ لہذا سب علل و اسباب، اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور انہیں جو اللہ حکم کرے گا، وہ وہی کریں گے۔
* صحیفہ سجادیہ، حضرت امام سجاد (علیہ السلام)، ساتویں دعا۔
Add new comment