بسم اللہ الرحمن الرحیم
مناجات شعبانیہ جو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل ہوئی ہے اور اس مناجات کو سب ائمہ اطہار (علیہم السلام) پڑھا کرتے تھے، اس مناجات کے سلسلہ میں دسواں مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ امام العارفین حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اس فقرہ میں بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: "وَ بِیدِك لابِیدِ غَیرِك زِیادَتِی وَ نَقْصِی وَ نَفْعِی وَ ضَرِّی"، "اور صرف تیرے قبضہ میں ہے نہ کہ تیرے علاوہ کسی اور کے قبضہ میں میرا بڑھاو اور کمی اور نفع اور نقصان"۔
الفاظ کی تشریح
ضر: جو نقصانات انسان کو پہنچتے ہیں چاہے جسمانی لحاظ سے ہوں جیسے بدن کے کسی حصہ کا ناقص ہوجانا اور مختلف بیماریاں اور چاہے روحانی لحاظ سے ہوں جیسے جہالت، جنون اور پاگل پن اور نیز اور طرح کے نقصانات جیسے مال، مقام اور اولاد کا ضائع ہوجانا۔
مناجات کی تشریح
عظیم توحیدشناس حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے اس فقرہ سے توحید افعالی کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔ وضاحت یہ ہے کہ حقیقی اثر ڈالنے والا اللہ ہے اور نفع اور نقصان اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور سعادت و خوشبختی اسی کے حکم سے ہے۔ کائنات میں اثر ڈالنے والی ذات صرف ایک ہی ہے جو اللہ تبارک و تعالی ہے اور اس کے علاوہ دیگر سب افراد اور امور ایسے وسیلے اور واسطے ہیں جنہیں اللہ نے ہی قرار دیا ہے جو ذاتی طور پر کوئی حیثیت نہیں رکھتے، صرف سبب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ارشاد فرماتا ہے: "وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"[1]، "اگر خدا تمہیں کوئی ضرر و زیاں پہنچانا چاہے تو اس کے پاس اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے۔ اور اگر کوئی بھلائی پہنچانا چاہے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے"، پھر فرمایا: "وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ[2]"، "اور اپنے تمام بندوں پر غالب اور صاحب حکمت اور باخبر رہنے والا ہے"۔
ان آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کا ارادہ ہر چیز پر حکومت کرتا ہے، اگر کسی سے کوئی نعمت چھین لے یا کسی کو کوئی نعمت عطا فرمائے تو کائنات میں کوئی طاقت نہیں ہے جو اسے تبدیل کرسکے۔ لفظ "یمسسک" جو "مس" سے ہے، اس کا "خیر اور شر" کے بارے میں استعمال، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حتی کم سے کم خیر و شر، اللہ کے ارادہ اور طاقت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔[3]
نیز ایک اور آیت میں ارشاد الہی ہے: "وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ"، "اور اگر اللہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو اس کے سوا کوئی اس کا دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کرنا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنا فضل و کرم فرمائے وہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے"۔
بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اس آیت میں نقصان کو دور کرنے کے لئے "إِلَّا هُوَ" کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، لیکن خیر کو دور کرنے کے لئے یہ الفاظ استعمال نہیں کیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جو نقصان انسان کو پہنچتا ہے اللہ ہی اسے دور کرتا ہے، لیکن جو فضل انسان کو نصیب ہوتا ہے اسے اللہ دور نہیں کرتا بلکہ ہمارے اعمال اسے بدل دیتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد پروردگار ہے: "إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ[4]"، "بے شک اللہ کسی قوم کی اس حالت کو نہیں بدلتا جو اس کی ہے جب تک قوم خود اپنی حالت کو نہ بدلے"۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی مناجات شعبانیہ کے اس فقرہ کو قرآن کے تناظر میں دیکھا جائے تو آپؑ کا یہ بیان مزید واضح ہوتا ہے کہ نفع اور نقصان اتنی مضبوطی اور گہرائی سے اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے کہ حتی اللہ تعالی، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیتا ہے: "قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ[5]"، "(اے رسول) کہہ دیجیے! (یہ معاملہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے) میں تو خود اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ مگر جو اللہ چاہے (وہی ہوتا ہے)"۔
واضح ہے کہ اللہ تعالی، حکیم ہے اور جو کچھ اس کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے وہ حکمت و مصلحت کی بنیاد پر ہوتا ہے، لہذا جو ظاہری طور پر نقصان انسان کو پہنچتا ہے، اس میں کوئی حکمت و مصلحت چھپی ہوتی ہے اگرچہ انسان اپنے قلیل علم کی وجہ سے اکثر ان مصلحتوں کا ادراک نہیں کرپاتا۔
کائنات میں شر کے پائے جانے کی وضاحت: کائنات میں مطلق اور سوفیصد شر نہیں پایا جاتا، لہذا جب شر کی اللہ سے نسبت دی جاتی ہے تو اس سے مراد ظاہری طور پر نعمت کا چھن جانا ہے، لیکن درحقیقت وہ خیر ہے جو یا انسان کو بیدار کرنے کے لئے ہے یا تعلیم و تربیت دینے کے لئے اور اس کے غرور، سرکشی اور خودخواہی کو توڑنے کے لئے ہے یا دیگر مصلحتوں کی وجہ سے ہے۔[6]
شر و نقصان کی حکمتیں:
۱۔ غفلت و فراموشی سے بیدار کرنا: انسان کیونکہ اللہ سے غفلت کرنے اور اللہ کو فراموش کرنے کی وجہ سے گناہ و معصیت کا ارتکاب کرلیتا ہے تو اس غفلت سے نکالنے کے لئے مسلسل ایسی چیز کی ضرورت ہے جو انسان کو یاددہانی کروائے تا کہ انسان گناہوں کے ارتکاب سے دوری اختیار کرے۔ یاددہانی کرنے والے اسباب میں سے ایک سبب، مصیبتوں اور تکلیفوں میں مبتلا ہونا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں پروردگار عالم کا فرمان ہے: "وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ"[7]، "بلکہ اے رسول (ص) بے شک ہم نے آپ سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے اور ان کی نافرمانی پر پہلے تو ہم نے ان کو تنگدستی اور تکلیف میں مبتلا کیا تاکہ تضرع و زاری کریں"۔ نیز دوسرے مقام پر فرمایا: "وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ[8]"، "اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ دل سے رجوع کرکے اپنے پروردگار کو پکارتا ہے"۔
۲۔ برے اعمال کا نتیجہ: بعض آیات میں مصیبتوں اور تکلیفوں کو انسان کے برے اعمال کا نتیجہ بتلایا گیا ہے۔ اللہ تعالی بعض لوگوں کے گناہوں کو مٹانے کے لئے اپنے لطف و کرم کی بنیاد پر، انہیں اِسی دنیا میں مصیبتوں میں مبتلا کرتا ہے، ارشاد الہی ہے: "وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ[9]"، "اور تمہیں جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کئے ہوئے(کاموں) کی وجہ سے پہنچتی ہے اور وہ بہت سے(کاموں سے) درگزر کرتا ہے"۔
۳۔ امتحان، مقام کی ترقی کے لئے: "وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ. الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ . أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ"[10]، "اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے خوف و خطر، اور کچھ بھوک (و پیاس) اور کچھ مالوں، جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ساتھ (یعنی ان میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ)۔ (اے رسول(ص)) خوشخبری دے دو ان صبر کرنے والوں کو کہ جب بھی ان پر کوئی مصیبت آپڑے تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم صرف اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی وہ (خوش نصیب) ہیں، جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے درود (خاص عنایتیں اور نوازشیں) ہیں اور رحمت و مہربانی ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں"۔
نتیجہ: کائنات کے سب امور، اللہ تعالی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اللہ تعالی مخلوق پر فضل و کرم ہی کرتا ہے، مگر جو شر اور نقصانات انسان کو پہنچتے ہیں، انسان کو غفلت کی نیند سے جگانے کے لئے ہوتے ہیں یا انسان کے اپنے برے اعمال کی وجہ سے ہوتے ہیں یا پروردگار انسان کو امتحان میں ڈال کر اسے ترقی دینا چاہتا ہے تو اس پر مصیبتیں آتی ہیں، لہذا انسان کو ہر حال میں حکمتِ پروردگار کے سامنے تسلیم اور راضی رہنا چاہیے، کیونکہ جو کچھ انسان کے متعلق کیا جارہا ہے اس کے فائدہ میں ہے اور دوسری طرف سے انسان کو اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہیے کہ حکمت الہی کے تحت اس پر جو مصیبت آئی ہے، اسے اللہ کے سوا کوئی ٹالنے والا اور دور کرنے والا نہیں ہے، بنابریں اسے نفع اور ظاہری نقصان (جو درحقیقت یہ بھی نفع ہے) کی حالتوں میں اللہ سے ہی رازونیاز اور مناجات کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ انعام، آیت 17۔
[2] سورہ انعام، آیت 18۔
[3] ماخوذ از: تفسیر نمونہ، ج5، ص175۔
[4] سورہ رعد، آیت 11۔
[5] سورہ یونس، آیت 49۔
[6] ماخوذ از: تفسیر نمونہ، ج5، ص175۔
[7] سورہ انعام، آیت 42۔
[8] سورہ زمر، آیت 8۔
[9] سورہ شوری، آیت 30۔
[10] سورہ بقرہ، آیت 155 سے 157 تک.
خلاصہ: مناجات شعبانیہ جو حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی مناجات ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کا نفع و نقصان قدرت الہی کے قبضہ میں ہے۔ لہذا انسان کو ہر حال میں حکمت الہی کے سامنے تسلیم رہنا چاہیے۔
Add new comment