خلاصہ: اس مضمون میں دو باتوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن کا روایت میں نقصان بیان کیا گیا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "أوحَى اللّهُ عَزَّ وَجَلَّ الى مُوسى عليه السلام لا تَفرَح بِكَثرَةِ المالِ وَلا تَدَع ذِكري عَلى كُلّ حالٍ فَانَّ كَثرَةَ المالِ تُنسي الذُّنوبَ وَانَّ تَركَ ذِكري يَقسي القُلُوبَ"، "اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کو وحی کی: مال کی کثرت سے خوش نہ ہوجاؤ، اور میرے ذکر کو کسی حال میں نہ چھوڑو، کیونکہ مال کی کثرت گناہوں کو بھلا دیتی ہے، اور میرے ذکر (یاد) کو چھوڑنا دلوں کو سخت کردیتا ہے"۔
اس حدیث میں دو چیزوں سے منع کیا جارہا ہے اور ہر ایک کا نتیجہ بھی بتایا جارہا ہے۔ [الخصال، ص۳۹]
۱۔ مال کی کثرت سے انسان کو خوش نہیں ہونا چاہیے:
جب انسان مال کی کثرت پر خوش ہوجاتا ہے تو یہ خوشی اسے مال کو مزید بڑھانے، اکٹھا کرنے، گننے، فخر کرنے اور اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنے میں مصروف کردیتی ہے تو آدمی مغرور ہونے لگتا ہے۔ مال کی کثرت پر خوش ہونے والا شخص، مال کی کثرت کو کوئی بڑی چیز سمجھ لیتا ہے اور مال کے دنیاوی پہلو میں ڈوب جاتا ہے، لہذا اپنی آخرت سے غافل ہوجاتا ہے اور اپنے گناہوں کی طرف توجہ نہیں کرتا، ان کو چھوٹا سمجھتا ہے اور اپنے کیے ہوئے گناہوں اور برائیوں کو بھلا دیتا ہے۔ اس شخص نے جب گناہوں کو بھلا دیا تو ان سے استغفار اور توبہ کو بھی بھلا دے گا۔
۲۔ اللہ کے ذکر اور یاد کو کسی حال میں نہیں چھوڑنا چاہیے:
انسان جب اللہ کے ذکر اور اللہ کی یاد کو چھوڑ دیتا ہے تو اس کا مطلب وہ اپنی خواہشات، دنیاداری اور ایسی یاد میں مصروف ہوگیا ہے جس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق نہیں ہے، اور کیونکہ صرف اللہ تعالیٰ کی یاد انسان کے دل کو مطمئن رکھتی ہے تو جب انسان ایسی باتوں اور کاموں اور سوچوں کو یاد کرتا ہے جن کی وجہ سے اللہ کو بھلا دیتا ہے تو اس کا دل سخت ہوجاتا ہے۔ لہذا انسان کوایسی باتوں کے بولنے اور سننے میں اور ایسے کاموں کے کرنے میں اور ایسی سوچوں کے سوچنے میں مصروف نہیں ہوجانا چاہیے جن سےانسان اللہ تعالیٰ کوفراموش کردے۔ اگر انسان ہر وقت اور ہر لمحہ اللہ کے ذکر اور اس کی یاد میں مصروف رہے گا تو ایسے کام، ایسی بات اور ایسی سوچ میں اپنے آپ کو مصروف ہی نہیں کرے گا جس سے اللہ کو بھلا دے، بلکہ ہر کام اللہ کو یاد رکھتے ہوئے کرے گا۔
* الخصال، شیخ صدوق (علیہ الرحمہ)، ص۳۹۔
Add new comment