تین موقعوں پر ذکرِ خدا کی تین کنجیاں

Tue, 08/14/2018 - 12:26

خلاصہ: ذکر صرف یہ نہیں کہ آدمی زبان سے کہے، بلکہ اس کا معتقد بھی ہونا چاہیے، انسان جس قدر اسلامی تعلیمات کو گہری نظر سے حاصل کرتا چلا جائے گا، دین کے بارے میں اس کی بصیرت بڑھتی چلی جائے گی، جب مشکلات سے سامنا کرے گا، تو ان تعلیمات کے مطابق عمل پیرا ہوگا، نہ کہ اس ذہنیت کے ساتھ جو عام طور پر لوگوں میں رائج ہے۔

تین موقعوں پر ذکرِ خدا کی تین کنجیاں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
تین موقعوں پر ذکرِ خدا کی تین کنجیاں
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نے جناب کمیل سے ارشاد فرمایا: "يا كُمَيْلُ! قُلْ عِنْدَ كُلِّ شِدَّةٍ «لا حَوْلَ وَ لا قُوَّةَ الّا بِاللَّهِ الْعَلِىِّ الْعَظيمِ» و قُلْ عِنْدَ كُلِّ نِعْمَةٍ «الْحَمْدُلِلَّهِ» تُزْدَدْ مِنْها، وَ اذا ابْطَأَتِ الْارْزاقُ عَلَيْكَ «فَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ» يُوَسَّعُ عَلَيْكَ فيها"، "اے کمیل! ہر مشکل کے وقت کہو: «لا حَوْلَ وَ لا قُوَّةَ الّا بِاللَّهِ الْعَلِىِّ الْعَظيمِ» اور ہر نعمت پر کہو: «الْحَمْدُلِلَّهِ» تاکہ اس نعمت میں اضافہ ہوجائے، اور جب تمہارے رزق میں تاخیر ہوجائے تو اللہ (کی بارگاہ میں) استغفار کرو، تاکہ تمہارے لیے روزی میں وسعت ہوجائے۔ [بحار الانوار، ج74، ص270]
حضرتؑ کی اس حدیث میں تفکّر اور غوروخوض:
۱۔ ذکر "لا حول و لاقوّة الا باللَّه" کے معنی یہ ہیں کہ سب طاقتیں اللہ کے پاس ہیں اور سب مشکلات میں مدد کرنے والا وہی ہے۔ اگر ہم اس بات پر یقین کرتے ہوئے اپنے سارے وجود کے ساتھ اس کی بارگاہ میں جائیں، یعنی دریا میں غرق ہونے والے شخص کی حالت جیسی حالت، ہم میں پیدا ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی طاقت کے علاوہ کسی چیز کے بارے نہ سوچیں تو خداوند متعال مشکلات میں ہماری مدد فرمائے گا۔
۲۔ "الحمدللہ" کے ذکر میں یہ پیغام ہے کہ ہم کسی نعمت کا حاصل کرکے تکبر اور غرور کا شکار نہ ہوجائیں اور نعمت کو واقعی طور پر اللہ کی طرف سے سمجھیں۔ اس نعمت سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں اور کنجوسی بھی نہ کریں تو وہ نعمت باقی بھی رہے گی اور بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوگا۔
۳۔ "استغفراللہ" کا ذکر بھی اسی طرح ہے۔ استغفار کے معنی یہ ہیں کہ آدمی دوبارہ گناہ کی طرف نہ جائے، کیونکہ معاشرے میں مالی مشکلات کے اسباب میں سے ایک سبب، گناہ ہیں۔ گنہگار معاشرہ فقیر معاشرہ بن جائے۔ البتہ گناہ کی وجہ سے ایسی مشکلات کا ظاہر ہونا، مومنین کو بیدار کرنے کا باعث ہے۔ اس نقطہ نگاہ کی بناء پر مذکورہ مشکلات کا ظاہر ہونا، خود ایک نعمت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کفار کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور ان کو بیدار نہیں کرتا تاکہ وہ اپنے گناہوں میں ڈوب جائیں، اور اس کی وجہ وہ خود ہیں، کیونکہ ان کو جتنا متوجہ کیا گیا وہ اللہ کے احکام کی لاپرواہی کرتے رہے اور نافرمانی پر زور سے ڈٹے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[بحار الأنوار - ط دارالاحیاء التراث، علامہ مجلسی علیہ الرحمہ]
[ماخوذ از: 110 سرمشق از سخنان حضرت على (ع)، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی]

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 10 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 48