خلاصہ: انسان کی ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت معاشرتی زندگی ہے، انسان اپنی بہت ساری ضروریات کو معاشرتی زندگی میں پورا کرتا ہے۔
معاشرتی زندگی اور ہر آدمی کو لوگوں سے رابطہ رکھنے کی ضرورت اس لیے ہے کہ اس کی مادی اور معنوی ضرورتیں، معاشرے میں بہتر طریقے سے پوری ہوتی ہیں، کیونکہ انسان کی بعض ضرورتیں، صرف معاشرے میں ہی پوری ہوسکتی ہیں اور انفرادی زندگی میں ان کا پورا ہونا ممکن نہیں ہے اور بعض دوسری ضرورتیں انفرادی زندگی میں ناقص طور پر پوری ہوتی ہیں اور مکمل طور پر معاشرے میں پوری ہوتی ہیں۔
لوگوں کو جو ایک دوسرے کی ضرورت ہے، اسے دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ انسان کو دوسروں کی ضرورت اپنی پیدائش میں، جیسے بچے کو ماں باپ کی ضرورت ہوتی ہے، البتہ یہ معاشرتی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ معاشرتی تعلقات کو قائم کرنے کی بنیاد ہے اور اقدار کو مقرر کرنے کا معیار ہے، یعنی آدمی کیونکہ اپنے وجود کی بنیاد اور پیدائش میں دوسروں کا ضرورتمند ہے تو اس ضرورت کے مطابق اسے انہی کے مطابق سلوک کرنا ہوتا ہے۔
۲۔ انسان کو لوگوں کی ضروت اپنی پیدائش کے بعد اور زندگی کے دوران۔
اس قسم کی ضروریات چند قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں:
الف) جو ضروریات آدمی کو براہ راست دوسرے شخص سے ہوتی ہیں، یعنی ایک شخص کا دوسرے شخص سے رابطہ رکھنے کے ذریعے خودبخود یہ ضروریات پوری ہوجاتی ہیں، جیسے بچے کو اپنی ماں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ب) جو ضروریات دوسروں کی مدد اور شراکت سے اور دوسری چیزوں کے ذریعے پوری ہوتی ہیں۔
اس آخری حصہ والی ضروریات کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ انسان کو مادی اور نعمتوں کی ضرورت۔ یہ ضرورت عالَم خلقت کے ذریعے انسان کے لئے پوری ہوجاتی ہیں، مگر معاشرے میں ان ضروریات سے بہتر فائدہ حاصل کرنے کے لئے، لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے، جیسے کھانے پینے کے لئے پانی، روٹی، گوشت، سبزی، غلات اور پھَل وغیرہ کی ضرورت، پہننے کے لئے مناسب کپڑوں کی ضرورت، آمدورفت کے لئے صاف اور ہموار راستے اور گاڑیوں کی ضرورت اور اس طرح کی بہت ساری دوسری ضروریات۔
۲۔ معنوی اور روحانی ضروریات۔ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لوگ ایک دوسرے کے علم اور توانائیوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں، یہ ضروریات بھی معاشرے میں ایک دوسرے کی مدد سے پوری ہوتی ہیں۔ علماء کرام دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور لوگوں کے اعتقادی، شرعی اور اخلاقی مسائل کو انفرادی اور معاشرتی زندگی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔
* اصل مطالب ماخوذ از: اخلاق در قرآن، آیت اللہ مصباح یزدی، ج۳، ص۵۵۔
Add new comment