ابوطالب علیہ السلام کی تایخ زندگی، جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ان کی عظیم قربانیاں اور رسول اللہ اور مسلمانوں کی ان سے شدید محبت کو ملحوظ رکھنا چاہیئے، ہم یہاں تک دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت ابوطالب علیہ السلام کی موت کے سال کا نام ”عام الحزن“ رکھا۔
اس دن ، ہجرت سے تین سال پہلے اور۱۰ بعثت کو ، سید بطحاء ، اباالحیدر ، حضرت ابوطالب علیه السلام کی وفات ہوئی۔[ ۱۔ بحارالانوار}
مشہور قول کے مطابق ، رحلت کے وقت آپ کی عمر ۸۰ سال تھ؛[۲۔ منتخب التواریخ]
آپ کا اسم مبارک: "عمران" ہے؛ آپ کےوالد جناب عبدالمطلب علیہ السلام اور ماں "فاطمه بنت عمرو بن عائذ" ہیں[۳۔ بحارالانوار]
ایمانِ حضرت ابوطالب علیه السلام کے سلسلے میں بہت زیادہ کتابیں لکھی گئیں؛ جنمیں سے سب سے پہلی کتاب سال ۶۳۰ ہجری میں لکھی گئی…
جناب اباالحیدر علیه السلام کی عظمت کے باب میں معصومین علیہم السلام کی روایات کے علاوہ؛حضرت ابوطالب علیه السلام کے اشعار،پیغمبر(ص) کی حمایت میں؛ اور حضرت ابوطالب علیہ السلام کی رحلت کے موقع پر امیرالمومنین سے منسوب مرثیہ،اور ساتھ ہی قریش کو مسجدالحرام میں مخاطب کرتے ہوئےجبکہ وہ پیغمبر کی شان میں گستاخی کا ارادہ رکھتے تھےاور رحلت کے وقت خود آپ کے بیانیہ کلمات، اور طلب باراں کے وقت آپ کے دعائیہ کلمات……
اور اسکے علاوہ متعدد تاریخی واقعات ؛آپ کے منحصر بہ فرد ایمان پر دلیل ہیں؛ ایک ایسا ایمان جسے روایات میں ایمانِ اصحاب کہف سے تشبیہ دی گئی ہے…
اور جب حضرت ابوطالب علیهالسلام رحلت فرما گئے تو جبرئیل پیغمبر(ص) پر نازل ہوئے اور کہا: آپ کا مددگار اٹھ گیا ، اب ہجرت کیجیئے۔[۴۔بحارالانوار]
جناب ابوطالب علیه السلام کا مؤثر کردار کچھ اس طرح کا ہے کہ ہر صاحب انصاف اس کا معترف ہےاور آپ کی عظمت کے سامنے سر بسجود ہے؛یہاں تک کہ علماء اہل سنت بھی اسکے معترف ہیں:
ابن ابی الحدید نےچند اشعار کے ضمن میں کچھ یوں لکھا ہے:
اگر یہ ابوطالب اور ان کےبیٹے نہ ہوتے تو دین کا وجود ہی نہ ہوتا جو اس طرح سے مضبوط ہوپاتا، ابوطالب نے مکہ میں پیغمبر کی تائید و حمایت کی ، اور ان کے بیٹے نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مدینہ میں پیغمبر کی حمایت اور دفاع کیا۔[۵۔ شرح نہج البلاغه ابن ابی الحدید]
سلام اللّهِ عَلَيهِ ۔
➖➖➖➖➖
منابع و ماخذ
(۱) بحارالانوار ۲۴/۱۹
(۲) منتخب التواریخ ص۴۳
(۳) بحارالانوار ۱۳۸/۳۵
(۴) بحارالانوار ۱۴/۱۹
(۵) شرح نہج البلاغه ابن ابی الحدید ۸۴/۱۴
Add new comment