خلاصہ: حضرت ابوطالب اپنے باپ کی وفات کے بعد رسول اللہ [ص] کے مددگار اور پشت پناہ رہے، آپؐ اپنے بیٹے امیرالمومنین (علیہ السلام) کو حضور کے بستر پر سلاتے تاکہ حضور کی جان محفوظ رہے اور آپؐ نے مشرکین مکہ کی حرکات کی روک تھام کی۔ آپؐ کی شان میں علامہ مجلسی اور ابن ابی الحدید نے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا تحفظ نقل کیا اور آپؐ کے عظیم کارنامے بیان کئے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جب رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی پیدائش ہوئی تو آپؐ کے والد گرامی کا انتقال ہوچکا تھا، لہذا آپؐ کی سرپرستی آپؐ کے جد گرامی حضرت عبدالمطلبؑ نے اپنے ذمہ لے لی اور ابھی تقریباً آپؐ کی عمر سات سال ہوئی تھی کہ آپؐ کے جد گرامی کا بھی انتقال ہوگیا۔ جناب عبدالمطلبؑ نے احتضار کے وقت اپنی اولاد کے سامنے، حضرت ابوطالب کو پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی سرپرستی اور حفاظت کی وصیت اور تاکید فرمائی۔[1] جیسا کہ یہ وصیت شعر کی صورت میں بھی بیان ہوئی ہے:
اوصیک یا عبد مناف بعدی بموعد بعد ابیه فرد
اے عبدمناف (ابوطالب)! اس شخص کی حفاظت جو اپنے باپ کی طرح موحّد ہے، تمہارے ذمہ لگاتا ہوں۔ حضرت ابوطالبؑ نے جواب دیا: بابا جان! محمد (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے لئے کسی وصیت کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ میرے فرزند ہیں اور میرے بھائی کے فرزند۔ (ابوطالبؑ اور عبداللہ ؑایک ماں سے تھے)[2]۔ جب جناب عبدالمطلبؑ کا انتقال ہوگیا تو حضرت ابوطالبؑ، پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کو اپنے پاس لے گئے اور حالانکہ اتنے مالدار بھی نہیں تھے، لیکن آنحضرتؐ کے لئے بہترین سرپرست تھے۔ حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: میرے باپ نے غربت کے باوجود سروَری کی اور ان سے پہلے کوئی غریب، سروری نہ پاسکا"۔[3]
حضرت ابوطالبؑ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے اسقدر حددرجہ محبت کا اظہار کرتے تھے کہ اپنی اولاد میں سے کسی سے اس حد تک محبت نہیں کرتے تھے، آپؑ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے پاس سوتے اور جب باہر جاتے تو آنحضرتؐ کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور اپنی اچھی خوراک کو آنحضرتؐ کے لئے خاص طور پر قرار دیتے۔
علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نقل کرتے ہیں: "جب بھی رسولؐ اللہ اپنے بستر پر سوتے تو حضرت ابوطالبؑ سب کے سوجانے کے بعد، آرام سے آنحضرتؐ کو جگاتے اور علیؑ کے بستر کو آنحضرتؐ کے بستر سے بدل دیتے اور اپنے فرزند اور بھائیوں کو آنحضرتؐ کی حفاظت کے لئے مقرر کرتے تھے"۔[4]
ابن ابی الحدید تحریر کرتے ہیں: "ابوطالب وہ شخص ہیں جنہوں نے پیغمبر خدا کی بچپن میں سرپرستی کی اور جب بڑے ہوگئے تو آنحضرت کو اپنے تحفظ میں رکھا، اور کفار قریش کی حرکتوں کی روک تھام کی۔ آپ نے اس راستہ میں طرح طرح کی مشکلات اور تکلیفوں کو برداشت کیا اور مصیبتوں کو دل کی اتھاہ گہرائی سے قبول کیا اور پیغمبر کی مدد و نصرت اور آنحضرت کے دین کی تبلیغ کے لئے پورے وجود کے ساتھ قیام کیا! اتنا ایثار کیا کہ "جبرئیل" آپ کی وفات کے وقت پیغمبر پر نازل ہوئے اور خطاب کیا: اب مکہ سے باہر چلیں جائیں، کیونکہ آپ کا معاون و مددگار دنیا سے رحلت کردیا ہے"[5]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)ماخوذ: ابوطالب علیه السلام شخصیت مظلوم تاریخ، تصنیف: عسکری اسلام پور (
[1] محمدبن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوک، قاهره، مطبعه الاستقامه، بی تا، ج 2، ص 32.
[2] مذکور حوالہ۔
[3] احمد بن اسحاق یعقوبی، تاریخ یعقوبی، مترجم: محمد ابراهیم آیتی، انتشارات علمی و فرهنگی، 1371، ج 1، ص 368.
[4] محمد بن سعد، الطبقات الکبری، قاهره، مطبعه نشر الثقافه اللاسلامیه، 1358 ق، ج 1، ص 101.
[5] ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج 1، ص 29 و ج 14، ص 70.
Add new comment