علم الٰہی کے خزانے دار ہونے کی کیفیت

Thu, 02/27/2020 - 18:18

خلاصہ: زیارت جامعہ کبیرہ کی تشریح کرتے ہوئے اس فقرے کی وضاحت کی جارہی ہے جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) علم کے خزانے دار ہیں۔

علم الٰہی کے خزانے دار ہونے کی کیفیت

زیارت جامعہ کبیرہ میں حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:"اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ يا اَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ، وَ مَوْضِعَ الرِّسالَةِ، وَ مُخْتَلَفَ الْمَلائِكَةِ، وَ مَهْبِطَ الْوَحْيِ، وَ مَعْدِنَ الرَّحْمَةِ وَ خُزّانَ العِلْمِ"، "آپ پر سلام ہو اے نبوت کا گھرانہ، اور رسالت کا مقام، اور ملائکہ کے آمد و رفت کا مقام، اور وحی کے اترنے کا مقام، اور رحمت کا معدن (کان)، اور علم کے خزانے دار"۔

اہل بیت (علیہم السلام) نورانیت اور ولایت کلیّہ کے رتبہ پر یعنی تامّ مرحلہ جو ان کی امامت کی حقیقت ہے، اللہ کے اذن سے کائنات کے تمام عوالم پر مسلّط ہیں اور کوئی چیز ان کے علمی احاطہ سے چھپی نہیں رہتی۔
دوسرے لفظوں میں: کائنات کے تمام چھوٹے بڑے حادثات، حتی انسانوں کا آنکھ جھپکنا، اٹھنا بیٹھنا، درخت سے کسی پتّی کا گرنا اور... ان کی نظروں میں ہے، اور ماضی، حال اور مستقبل نامی کوئی چیز ان کے لئے نہیں پائی جاتی۔
لیکن جب مادی مرحلہ اور دنیاوی عالَم میں پہنچتے ہیں یعنی ناقص مرحلہ میں تو دوسروں کی طرح ہیں۔ بایں معنی کہ شاید کسی بات کو نہ جاننا چاہیں اور ان کے حالیہ علم کے تسلّط سے باہر ہو۔
ان حضراتؑ کا دوسروں سے فرق یہ ہے کہ دوسروں کی اُس بے انتہا خزانے تک رسائی نہیں ہے، لہذا ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی بات جاننا چاہیں لیکن نہ جان سکیں، مگر اہل بیت (علیہم السلام) جو اُس بے انتہا خزانے کے خزانے دار اور کلیدبردار ہیں، جو کچھ جاننا چاہیں جان سکتے ہیں۔
اسی لیے روایات میں آیا ہے: "إنَّ الإِمامَ إذا شاءَ أن يَعلَمَ عَلِمَ"، "یقیناً امام جب جاننا چاہے تو جان لیتا ہے"۔ [الکافی، ج۱، ص۲۵۸]
اس طرح سے یہ حضراتؑ علم الٰہی کے مظہر ہیں، یعنی جس طرح کوئی چیز اللہ کے بے انتہا علم کے احاطہ سے چھپی نہیں رہتی: "وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ"، "اور خوب جان لو کہ خدا ہر شی کا جاننے والا ہے"(۱)، "أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ"، "آگاہ ہو جاؤ کہ وہ (اللہ) ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے" (۲)۔ اسی طرح اہل بیت (علیہم السلام) کے علم کی وسعت نے کائنات کی سب مخلوقات پر احاطہ کیا ہوا ہے، لیکن توجہ رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا علم مستقل ہے اور کہیں اور سے وابستہ نہیں ہے، مگر اہل بیت (علیہم السلام) کا علم، اللہ تعالیٰ کے لایزال علم کے تابع ہے اور اس سے وابستہ ہے اور اگر اللہ کی طرف سے ان حضراتؑ کو علم نہ ملے اور اللہ کے بے انتہا علم سے متّصل نہ ہو تو یہ حضراتؑ بھی دوسروں کے ساتھ برابر ہوجائیں گے۔ لہذا بعض روایات میں آیا ہے: "إِذَا أَرَادَ اَلْإِمَامُ أَنْ يَعْلَمَ شَيْئاً أَعْلَمَهُ اَللَّهُ ذَلِكَ"، "جب امام کسی چیز کوجاننا چاہے تو اللہ اسے اس چیز کی تعلیم دے دیتا ہے"۔ [الکافی، ج۱، ص۲۵۸]
(۱) سورہ بقرہ، آیت ۲۳۱۔
(۲) سورہ فصلت، آیت ۵۴۔
* ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* مطالب ماخوذ از: ادب فنای مقرّبان، آیت اللہ جوادی آملی، ج۱، ص۱۶۶۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
8 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 35