خلاصہ: رسالہ حقوق کی تشریح کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے۔
رسالہ حقوق میں حضرت امام سجاد (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "فَأَمَّا حَقُّ اللَّهِ الْأَكْبَرُ فَأَنَّكَ تَعْبُدُهُ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ بِإِخْلَاصٍ جَعَلَ لَكَ عَلَى نَفْسِهِ أَنْ يَكْفِيَكَ أَمْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ يَحْفَظَ لَكَ مَا تُحِبُّ مِنْهَا"، "تو اللہ کا سب سے بڑا حق (تمہارے ذمے) یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو، کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ، تو جب تم نے اخلاص کے ساتھ ایسا کیا تو اس نے تمہارے لیے اپنے ذمے لیا ہے کہ تمہاری دنیا اور آخرت کے کام کو سنوار دے اور اس (دنیا اور آخرت) میں سے جو تمہیں پسند ہے اسے تمہارے لیے محفوظ کرے"۔ [تحف العقول، ص۲۵۶]
دعا کے معنی پکارنا ہے۔ دعا انسان کا اللہ تعالیٰ سے رابطہ کا وسیلہ ہے۔ طرح طرح کے مسائل اور مشکلات انسان کے لئے پیش آتے رہتے ہیں اور انسان ان سب کو حل نہیں کرسکتا، لہذا اسے کسی سہارے کی ضرورت ہے اور وہ سہارا اللہ تعالیٰ ہے۔
سورہ غافر کی آیت ۶۰ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ"، "اور تمہارا پروردگار کہتا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو۔ میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور جو لوگ میری (اس) عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے"۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "هو الدعاء وأفضل العبادة الدعاء"، "وہ (عبادت) دعا ہے اور سب سے افضل عبادت، دعا ہے۔ [مرآۃ العقول، ج۱۲، ص۲]
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ دعا کرنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور پروردگار نے دعا کرنے کے حکم کے بعد، دعا کو مستجاب کرنے کا وعدہ دیا ہے، البتہ اس وعدہ کی کچھ شرطیں بھی ہیں،لہذا وہ دعا قبول ہوگی جس کے شرائط پائے جاتے ہوں۔
دعا ایک طرح کی عبادت ہے، کیونکہ اس آیت میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے اور سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۶ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ"، "اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (آپ کہہ دیں) میں یقینا قریب ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا و پکار کو سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔ تو ان پر لازم ہے کہ وہ میری آواز پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں (یقین رکھیں) تاکہ وہ نیک راستہ پر آجائیں"۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سات مرتبہ اپنا تذکرہ کیا ہے اور سات مرتبہ اپنے بندوں کا تذکرہ کیا ہے اور اس طریقہ سے انتہائی قُرب اور رابطہ کو ظاہر کیا ہے۔
* تحف العقول، ابن شعبہ الحرانی، مؤسسة النشر الاسلامي، ص۲۵۶۔
* ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* مرآۃ العقول، علامہ مجلسی، دار الكتب الإسلاميّة، ج۱۲، ص۲۔
* مطالب ماخوذ از: حقوق از دیدگاہ امام سجاد علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام، قدرت اللہ مشایخی، ص۶۱۔
Add new comment