خلاصہ: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کے رسالہ حقوق کی تشریح کرتے ہوئے، اخلاص کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے۔
رسالہ حقوق میں حضرت امام سجاد (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "فَأَمَّا حَقُّ اللَّهِ الْأَكْبَرُ فَأَنَّكَ تَعْبُدُهُ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ بِإِخْلَاصٍ جَعَلَ لَكَ عَلَى نَفْسِهِ أَنْ يَكْفِيَكَ أَمْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ يَحْفَظَ لَكَ مَا تُحِبُّ مِنْهَا"، "تو اللہ کا سب سے بڑا حق (تمہارے ذمے) یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو، کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ، تو جب تم نے اخلاص کے ساتھ ایسا کیا تو اس نے تمہارے لیے اپنے ذمے لیا ہے کہ تمہاری دنیا اور آخرت کے کام کو سنوار دے اور اس (دنیا اور آخرت) میں سے جو تمہیں پسند ہے اسے تمہارے لیے محفوظ کرے"۔ [تحف العقول، ص۲۵۶]
اخلاص ایسا قیمتی گوہر ہے جو ہر چیز سے زیادہ خطرے کی زد میں ہے اور عموماً قیمتی چیزیں خطرے کی زد میں ہوتی ہیں۔ اگر آدمی کے گھر میں بےکار چیزیں پڑیں ہوں تو اگر کوئی چور گھر میں داخل ہوجائے تو وہ ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرے گا اور ادھر سے خود آدمی بھی اس کی حفاظت نہیں کرے گا، لیکن اگر اس کے گھر میں کوئی قیمتی موتی یا خالص سونا ہو تو اسے کسی مطمئن جگہ پر چھپا دے گا اور حتی اس کی حفاظت کے لئے کچھ اسباب بھی فراہم کرے گا۔
لہذا اخلاص ایسا قیمتی گوہر ہے جو طرح طرح کے خطروں کی زد میں ہوتا ہے۔ اس قیمتی گوہر کے لئے سب سے زیادہ اہم اور خطرناک دو چیزیں ہیں: عُجْب اور ریا۔
اخلاص بعض اوقات، عُجب اور خودپسندی سے آلودہ ہوجاتا ہے، کیونکہ عُجب، عبادت کے بالکل منافی اور متضاد ہے، اس لیے کہ عبادت خضوع اور انکساری کے لئے ہے تا کہ انسان اپنے تکبر کو توڑ کر اللہ کو معبود سمجھ لے اور اپنے آپ کو ذات ذوالجلال کے سامنے کچھ نہ سمجھے، لیکن عُجب یعنی اپنے آپ کو بڑا دیکھنا اور لائق اور پرہیزگار سمجھنا، جبکہ یہ بات عبادت کے مفہوم اور مقصد کے منافی ہے۔
عُجب، اس طرح پردہ ڈال دیتا ہے کہ آدمی دیکھ نہیں سکتا اور اس کا نتیجہ ہلاکت اور تباہی ہوتی ہے۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: "لَو لا تُذنِبُوا لَخَشِيتُ عَلَيكُم ماهُوَ اَکْبَرُ مِن ذلِكَ العَجَب"، "اگر تم گناہ نہ (بھی) کرتے تو میں تمہارے بارے میں اس سے بڑی )چیز) عُجب سے ڈرتا"۔ [بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۲۹]
* تحف العقول، ابن شعبہ الحرانی، مؤسسة النشر الاسلامي، ص۲۵۶۔
* بحارالانوار، علامہ مجلسی، موسسۃ الوفاء، ج۷۲، ص۳۲۹۔
Add new comment