خلاصہ: انسان کو خیال رکھنا چاہیے کہ سوچ سمجھ کر سوال کرے اور بیجا اور فضول سوالات سے پرہیز کرے۔
سورہ مائدہ کی آیات ۱۰۱، ۱۰۲ میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ . قَدْ سَأَلَهَا قَوْمٌ مِّن قَبْلِكُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوا بِهَا كَافِرِينَ"، "اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو۔ کہ جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اور اگر ان کے متعلق ایسے وقت میں سوال کروگے جبکہ قرآن اتر رہا ہے تو وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں گی اللہ نے انہیں نظر انداز کر دیا ہے (یا اللہ نے تمہیں معاف کر دیا ہے) اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا بردبار ہے۔ تم سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے اس قسم کے سوال (اپنے نبیوں سے) کئے تھے۔ پھر انہیں کی وجہ سے کافر (منکر) ہوگئے"۔
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے جب ایک آدمی نے کسی پیچیدہ مسئلہ کے بارے میں (آزمانے کے لئے) آپؑ سے سوال کیا تو آپؑ نے اسے ارشاد فرمایا: "سَلْ تَفَقُّهاً، وَ لَا تَسْأَلْ تَعَنُّتاً؛ فَإِنَّ الْجَاهِلَ الْمُتَعَلِّمَ شَبِيهٌ بِالْعَالِمِ، وَ إِنَّ الْعَالِمَ الْمُتَعَسِّفَ [الْمُتَعَنِّتَ] شَبِيهٌ بِالْجَاهِلِ الْمُتَعَنِّتِ"، "سمجھنے کے لئے سوال کرو نہ کہ تکلیف میں ڈالنے کے لئے، کیونکہ علم حاصل کرنے والا جاہل عالم کی طرح ہے، اور بے انصاف عالم تکلیف میں ڈالنے والے جاہل کی طرح ہے۔ [نہج البلاغہ، حکمت ۳۲۰]
سوال کرنے سے پہلے انسان اپنے اندر حق کو ماننے کی صلاحیت پیدا کرے۔ جو لوگ بعض مسائل میں پہلے سے اپنا موقف اختیار کرکے ارادہ پختہ کرلیتے ہیں اور اس کے بعد کسی عالم سے سوال کرنے کے لئے جاتے ہیں تو جو کچھ ان کی مرضی کے مطابق نہ ہو اسے نہیں مانیں گے یا اس میں شک کریں گے۔
انسان کو خیال رکھنا چاہیے کہ اس میں علمی غرور، دکھاوا، جہالت، اعتقادی کمزوری، دوسروں کو حقیر سمجھنا، تکبر، کینہ اوربغض جیسے صفات نہ پائے جاتے ہوں، کیونکہ ایسے صفات باعث بنتے ہیں کہ آدمی بیجا سوال کرے۔
بیجا سوالات کرنے کے کئی نقصانات ہیں، جیسے: اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنا، جھوٹا علمی غرور، بے فائدہ اور بلکہ نقصان دہ معلومات حاصل کرنا، جھوٹ، غیبت، الزام اور حسد جیسی برائیوں کا ارتکاب، علماء کو تکلیف اور زحمت میں ڈالنا، اپنی اور دوسروں کی ذہنی اور جسمانی طاقت کو ضائع کرنا، اپنے اور لوگوں کے راز اور عیبوں کو ظاہر کرنا، اپنی ذمہ داری کا زیادہ سخت ہونا۔
* ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* نہج البلاغہ، حکمت ۳۲۰۔
Add new comment