امام رضا (علیہ السلام) کا آیت مباہلہ کے ذریعہ مامون کو جواب

Sat, 08/24/2019 - 11:04

خلاصہ: مامون نے حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) سے حضرت علی (علیہ السلام) کی خلافت کی دلیل پوچھی تو آپؑ نے آیت مباہلہ کے لفظ "انفسنا" سے جواب دیا۔

امام رضا (علیہ السلام) کا آیت مباہلہ کے ذریعہ مامون کو جواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مامون نے حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) سے کہا: "مَا الدَّليلُ عَلى خِلافَةِ جَدِّكَ [عَلِيِّ بنِ أبي طالِبٍ] ؟ "، "آپ کے جد (علی ابن ابی طالب) کی خلافت پر کیا دلیل ہے؟"۔ حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: "أنفُسَنا "، تو مامون نے کہا: " لَولا نِساءَنا! "، اگر " ہماری عورتیں، نہ ہوتا "، تو حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: " لَولا أبناءَنا! "، " اگر ہمارے بیٹے، نہ ہوتا "، تو مامون خاموش ہوگیا۔ [طرائف المقال، ج 2 ص 302، بنقل از دانش نامه اميرالمؤمنين (ع) بر پايه قرآن، حديث و تاريخ، ج۷، ص۵۰۲]
وضاحت:
اس سوال کے جواب میں حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام)نے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی خلافت پر مامون کو جو دلیل پیش کی وہ آیت مباہلہ سے لفظ "أنفُسَنا" ہے۔ یعنی رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خلافت اور جانشینی کے لائق وہی شخص ہوسکتا ہے جو آنحضرتؐ کا نفس اور جان ہو، اور جب نفسِ رسولؐ موجود ہیں تو کوئی اور شخص خلافت کے لائق ہی نہیں ہے۔
حضرت امام رضا (علیہ السلام) کے اس جواب سے دو مسئلے حل ہوتے ہیں:
۱۔ حضرت علی (علیہ السلام) کی خلافت پر دلیل قرآن کی روشنی میں اور وہ بھی صرف ایک لفظ سے۔
۲۔ آپؑ نے آیت مباہلہ میں لفظ "أنفُسَنا" کا مصداق بھی واضح کردیا کہ "أنفُسَنا" کا مصداق حضرت علی (علیہ السلام) ہیں۔
پھر مامون نے آپؑ کے جواب کی تردید کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: "أنفُسَنا" سے مراد حضرت علی (علیہ السلام) تب ہوسکتے ہیں کہ آیت میں لفظ "نِساءَنا"، "ہماری عورتیں" نہ ہوتا، کیونکہ لفظ "نِساءَنا" ، لفظ "أنفُسَنا" کے مقابلے میں ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ "أنفُسَنا" سے مراد "رجالنا"، "ہمارے مرد" ہیں، اور مَردوں کی تو کوئی فضیلت نہیں ہے کہ آپ بھی اپنے مرد لائیں اور ہم بھی اپنے مرد لاتے ہیں۔
جب مامون نے کہا: " لَولا نِساءَنا" تو حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے فوراً فرمایا: "لَولا أبناءَنا"، " اگر ہمارے بیٹے، نہ ہوتا "۔ یعنی اگر لفظ "أبناءَنا" نہ ہوتا تو "أنفُسَنا" سے مراد "مرد" ہوسکتے تھے، لیکن کیونکہ اب تو "أبناءَنا" ذکر ہوا ہے اور "أبناءَنا" مَردوں میں ہی شامل ہے۔ اگر "أنفُسَنا" سے مراد "مرد" ہوتے تو "أبناءَنا" کو ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، لہذا "أبناءَنا" کو ذکر کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ "أنفُسَنا" سے مراد "مرد" نہیں ہیں، بلکہ صرف حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) مراد اور مصداق ہیں۔

۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[دانش نامه اميرالمؤمنين (ع) بر پايه قرآن، حديث و تاريخ، محمدی ری شہری]

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 56