خلاصہ: ہر انسان اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے کہ فیصلہ حق کے مطابق ہونا چاہیے، لیکن بعض اسباب کی وجہ سے انسان ناحق فیصلہ کرتا ہے اور اس کے نقصانات سے غافل ہوجاتا ہے۔
سورہ مائدہ کی آیت ۴۵ میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: "وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ"، "اور جو قانونِ خدا کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ ظالم ہیں"۔
جو افراد ناحق فیصلہ کرتے ہیں ان کے اس ناحق فیصلے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں:
قضاوت کا علم حاصل کیے بغیر فیصلہ کرنا، ناحق انتقام لینا، ذاتی اور اپنی پارٹی کے فائدوں کو مدنظر رکھنا، فیصلے کے بارے میں اسلامی احکام سے ناواقف ہونا، مال کی لالچ، اللہ سے اور اپنے اعمال کی جزا سے بے خوف ہونا، قیامت کو بھول جانا۔
جب ذرا سا غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ عدل و انصاف ہر انسان کو پسند ہے، مگر بعض لوگ اپنی نفسانی خواہشات اور اسلامی احکام سے دوری اختیار کرنے کی وجہ سے دوسروں سے عدل و انصاف کے ساتھ برتاؤ نہیں کرتے اور ان کا حق پامال کردیتے ہیں، لیکن جب ان کا اپنا حق ضائع ہونے کی زد میں آجائے تو عدل و انصاف کے دعویدار ہوتے ہیں۔
جب گھر یا معاشرے میں ناحق فیصلے ہوں تو طرح طرح کے نقصانات وقوع پذیر ہوتے ہیں:
ظلم اور بے انصافی کا پھیل جانا، لوگوں میں بے اعتمادی اور ناامیدی کی کیفیت کا غالب ہوجانا، لوگوں کے حقوق کی پامالی، معاشرے میں افراتفری کا پھیلنا، گناہ، قتل اور مارلوٹ کا معاشرے میں بڑھنا، دنیا و آخرت کی سزا۔
معاشرے میں حق کے مطابق فیصلے کے طریقہ کار کو اپنانے کے بعض حل یہ ہیں:
فیصلہ کرنے والے کو علم قضاوت کا عالم ہونا چاہیے، فیصلہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کے احکام سے واقف ہو، ناحق فیصلے کی دنیا اور آخرت میں سزا سے مطلع ہونا چاہیے، ناحق فیصلے کے اسباب کو فراہم نہ کیا جائے، جو برائے نام قاضی ہیں لیکن اسلامی قوانین کے مطابق قضاوت نہیں جانتے ان کو قضاوت اور فیصلے کے مقام سے ہٹا دینا چاہیے اور عدلیہ ان کے بارے میں قانونی کاروائی کرے۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment