خلاصہ: انسان کو زندگی کے مختلف مسائل میں عدل و انصاف سے برتاؤ کرنا چاہیے۔
لوگوں کے درمیان عدل کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو حضرت داود (علیہ السلام) کو حکم دیا ہے، سورہ ص کی آیت ۲۶ میں بیان ہوا ہے: "فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ"، "لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو"۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نہج البلاغہ کی حکمت ۴۳۷ میں ارشاد فرماتے ہیں: "الْعَدْلُ يَضَعُ الاْمُورَ مَوَاضِعَهَا"، "عدل یہ ہے کہ امور کو اپنی اپنی جگہ پر رکھا جائے"۔
حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "أعدَلُ الخَلقِ أقضاھُمْ بِالحَقِّ"، "سب سے زیادہ عادل شخص، سب سے زیادہ حق کے مطابق فیصلہ کرنے والا ہے"۔ [غرر الحكم، ص۱۹۴، ح۱۸۸]
انسان کو خیال رکھنا چاہیے کہ مختلف مسائل میں حق کے مطابق فیصلہ کرے، جیسے مالی مسائل اور لین دین میں، گھریلو مسائل اور ذمہ داریوں میں، حکومتی مسائل اور لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں، سیاسی مسائل اور خدمت گزار اور خودغرض آدمی کی پہچان میں، قوم و قبیلہ کے مسائل اور رشتہ داروں کے اختلافات اور جھگڑوں کو ختم کرکے صلح کروانے میں۔
اگر گھر اور معاشرے میں عدل و انصاف سے برتاؤ کیا جائے تو گھر اور معاشرے کو بہت سارے فائدے حاصل ہوں گے: جیسے نظم و سکون، امن و امان، جرم میں کمی، دنیا و آخرت کی سعادت، مالی حالات کا بہتری، عدل و انصاف کا رائج ہونا، مجرموں کا لوگوں پر مسلّط نہ ہوسکنا، اختلافات، تنازعات اور فتنوں کی روک تھام، قانون شکنی کرنے والوں کا خوفزدہ ہونا، مظلوموں کی امید کا باعث۔
* ترجمہ آیت از: علامہ ذیشان حیدر جوادی (اعلی اللہ مقامہ)۔
* نہج البلاغہ، محمد دشتی، حکمت ۴۴۷۔
* غررالحکم و غرر الحكم، آمدی، ص۱۹۴، ح۱۸۸۔
Add new comment