خلاصہ:روزانہ پیش آنے والے واقعات خوشگوار بھی ہوسکتے ہیں اور نہایت برے بھی، ان دونوں حالتوں میں ہمیں صبرکو اختیار کرنا چاہئے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صبر مؤمن کی نشانی ہے، مومن زندگی کے مشکل سے مشکل حالات میں بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑتا اور اپنے رب کے بتاۓ ہوۓ اصولوں کے مطابق چلتے ہوۓ اپنے ایمان کی حفاظت کرتا ہے، روزمرّہ میں پیش آنے والے واقعات خوشگوار بھی ہوسکتے ہیں اور نہایت برے بھی، ان دونوں حالتوں میں ہمیں صبرکو اختیار کرنا چاہئے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیۓ جو ہمارے ایمان کی خرابی کا باعث ہو، صبر ایک ایسی عظیم صفت ہے جس کے لئے خداوندعالم نے اپنے نبیوں اور رسولوں کی صفات میں تعریف کرتے ہوئے بیان فرمایا: « وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِينَ[سورۂ انبیاء،آیت:۸۵] اور اسماعیل(علیہ السلام) اور ادریس(علیہ السلام) اور ذوالکفل(علیہ السلام) کو یاد کرو کہ یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے»۔
حضرت علی(علیہ السلام) صبر کے بارے میں فرمارہے ہیں: «وَالصَّبْرُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَى الشَّوْقِ وَ الشَّفَقِ وَ الزُّهْدِ وَ التَّرَقُّبِ فَمَنِ اشْتَاقَ إِلَى الْجَنَّةِ سَلَا عَنِ الشَّهَوَاتِ وَ مَنْ أَشْفَقَ مِنَ النَّارِ اجْتَنَبَ الْمُحَرَّمَاتِ وَ مَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا اسْتَهَانَ بِالْمُصِيبَاتِ وَ مَنِ ارْتَقَبَ الْمَوْتَ سَارَعَ [فِي] إِلَى الْخَيْرَات؛ صبر کی چار قسمیں ہیں: شوق، خوف، زہد، انتظار، جو کوئی جنت کا مشتاق ہے اپنی خواہشوں کو ترک کردے، اور جو کوئی جھنم کی آگ سے ڈرتا ہے،حرام کاموں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے، اور جو کوئی زہد کو اختیار کرنا چاہے، مصیبتوں کو ہلکا سمجھے، اور جو کوئی موت کا انتظار کرے، نیکیوں کے بجالانے میں جلدی کرے»۔[نهج البلاغة، هجرت، ص:۴۷۳].
*نهج البلاغة، محمد بن حسين شريف الرضى، هجرت، ۱۴۱۴ ق.
Add new comment