خلاصہ: انسان میں کتنے تقاضے فطری طور پر پائے جاتے ہیں، ان میں سے ایک فطری تقاضا، اتّحاد کا تقاضا ہے۔
ہر فطری چیز، وقت سے بالاتر ہوتی ہے، یعنی اگر کوئی چیز فطری ہو تو کسی خاص وقت میں محدود نہیں ہوتی، بلکہ سب زمانوں میں جاری رہتی ہے، مگر یہ کہ فطرت کی رکاوٹیں اس حقیقت پر پردہ ڈال دیں اور اس نور دینے والے چراغ کو ڈھانپ دیں، ورنہ فطرت کی واضح ترین خصوصیت، وقت کی لامحدودیت ہے۔ سورہ روم کی آیت ۳۰ میں ارشاد الٰہی ہے: "فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ"، "اس (دینِ) فطرت کی پیروی کریں جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے"۔
یہ فطرت ایسی چیز ہے جو جاری ہے، ایسا نہیں کہ کسی زمانے میں ہو اور کسی زمانے میں نہ ہو، کسی انسان میں ہو اور کسی میں نہ ہو، کسی جگہ پر ہو اور کسی جگہ پر نہ ہو۔
انسانوں کا آپس میں اتّحاد، فطری چیزوں میں سے ہے، کیونکہ فطری ہے تو وقت سے بالاتر اور ہٹ کر ہے اور سارے زمانوں میں اسے جاری رہنا چاہیے۔ اتّحاد کے فطری ہونے کی جڑ، انسان کا معاشرتی ہونا ہے۔ فطری طور پر آج بھی انسانوں کی اندرونی آواز، خصوصاً مسلمانوں کو اتّحاد کی طرف پکارتی ہے اور انہیں اختلاف، جدائی اور تفرقہ سے منع کرتی ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت ۲۱۳ میں جو ارشاد الٰہی ہے: "كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً"، "( فطری اعتبار سے) سارے انسان ایک قوم تھے"، اور سورہ یونس کی آیت۱۹ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً"، "اور (ابتداء میں) سب انسان ایک ہی امت تھے (دینِ فطرت پر تھے)"، بعض مفسّرین کا کہنا ہے کہ ان دو آیات میں "کان" میں وقت کے معنی نہیں پائے جاتے، کیونکہ "کان" میں اگر وقت کے معنی ہوں تو "تھا" کے معنی میں ہوگا، لیکن اگر وقت یعنی ماضی کے معنی اس میں نہ پائے جاتے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ دو آیات انسانوں کی فطری کیفیت کو بیان کررہی ہیں۔ [اقتباس از: ترجمہ تفسیر المیزان، ج، ص۱۸۹، ج۱۰، ص۴۳]
* ترجمہ تفسیر المیزان، علامہ طباطبائی، ج، ص۱۸۹، ج۱۰، ص۴۳۔
Add new comment