خلاصہ: حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے ظہور کے بارے میں مسلمانوں کے مختلف مذاہب کا اتفاق ہے اور اہلسنّت کا اس بات پر عقیدہ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مہدویت اور حضرت مہدیؑ موعود کا آخرالزمان میں ظہور کرنا ایسا عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کا مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجود اس بات پر اتفاق ہے، اور یہ بات کسی خاص مذہب سے مختص نہیں ہے، کیونکہ امامیہ، زیدیہ، مالکیہ، حنفیہ، شافعیہ، حنبلیہ اور وہابیہ اور دیگر مذاہب کا اتفاق ہے کہ آخرالزمان میں پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی عترت میں سے ایسا شخص قیام کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھردے گا جیسے ظلم و جور سے بھری ہوگی۔
علمائے اہلسنّت میں سے بہت سارے علماء نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ عقیدہ مسلمانوں کا متفقہ ہے، اور صرف یہ نہیں کہ اس سے مطلع ہیں بلکہ اس بات کو اپنے اعتقادات میں سے جانتے ہیں اور حتی اہلسنّت کے بعض فقہاء نے اس شخص کے قتل کے واجب ہونے کا فتوا دیا ہے جو مہدیؑ کا منکر ہو اور بعض نے کہا ہے کہ اس کی تعزیر اور تادیب ہونی چاہیے تاکہ حق اور صحیح بات کی طرف پلٹ آئے، جیسا کہ ابن حجر ہیتمی سے نقل ہوا ہے۔
"ابن خلدون" اس عقیدے سے عناد رکھنے کے باوجود کہتا ہے: "ساری تاریخ میں مسلمانوں میں مشہور یہ ہے کہ آخرالزمان میں اہل بیت علیہم السلام میں سے ایک مرد ظہور کرے گا جو دین کی تائید کرے گا اور دنیا بھر میں عدل کو پھیلا دے گا"۔ [تاریخ ابن خلدون، ج 1، ص 555]
"احمد امین" اصل مہدویت کا انکار کرنے کے باوجود، اِس عقیدے کو اہلسنّت کے مسلمہ عقائد میں سے جانتا ہے کہ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ [المهدي و المهدویّه، ص 110]
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[بنقل از: دفاع از مہدویت، علی اصغر رضوانی، طبع مسجد مقدس جمکران]۔
Add new comment