خلاصہ: علماء معاشرے کے بنیادی رکن ہیں جو مختلف مسائل میں اپنا بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں، ان میں سے ایک عظیم اور ضروری کام اتّحاد بین المسلمین ہے جسے قائم کرنے کے لئے علماء لوگوں کی بصیرت افزائی کرسکتے ہیں اور شکوک و شبہات کو ختم کرسکتے ہیں۔
عالم دین تفرقہ نہیں ڈالتا، بلکہ اپنے علم کے ذریعے لوگوں کے درمیان اختلافات اور جھگڑوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے علم سے لوگوں کو فائدہ پہنچنا چاہیے اور ایک فائدہ جو پوری قوم کو پہنچ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے درمیان پائے جانے والے شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کو مضبوط دلائل کے ذریعے مٹائے تا کہ مسلمانوں کے درمیان اتّحاد قائم ہوجائے۔
ہوسکتا ہے کہ عوام میں سے کتنے لوگ اعلیٰ تعلیم سے محروم ہوں، اسی لیے سنی سنائی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے دوسرے مذاہب کے بارے میں بدگمان ہوجائیں۔
مسجدوں میں پیش نماز، نماز جمعہ میں امام جمعہ اور مختلف مقامات پر علماء طبقہ کو چاہیے کہ لوگوں کی بصیرت افزائی کریں اور اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کے درمیان اتّحاد کے لئے مشترکہ متفق علیہ نکات کو بیان کرتے ہوئے لوگوں کے ذہن کو پاکیزہ کریں تا کہ مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کو اپنا اسلامی بھائی سمجھیں۔
علماء کو چاہیے کہ مختلف مذاہب کے مشترکہ اصول اور فروع بیان کریں تاکہ مسلمانوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کریں اور نیز مسلمانوں کو دشمن کے ہتھکنڈوں سے مطلع کریں کہ مختلف مذاہب کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کے لئے دشمن طرح طرح کی سازشیں کرتا ہے، لہذا مسلمانوں کو ہوشیار رہنا چاہیے اور دشمن کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے نہ کہ اسلامی مذاہب کے خلاف، کیونکہ مسلمان تو ان کے بھائی ہیں اور یہ بعض شکوک و شبہات مسلمانوں کے اختلاف کے لئے دشمن نے پھیلائے ہیں۔
Add new comment