خلاصہ: امام علی(علیہ السلام): باہمی انتشار و تفرقہ سے احتراز کرکے از سر نو اپنی شیرازہ بندی کی تدبیر کریں کہ یہی عافیت اور سلامتی کا راستہ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اتحاد ایسی طاقت ہے جس سے دشمن ڈرتا ہے اور یہی اتحاد ان لوگوں پر گراں گزرتا ہے، اسی لئے دنیا پرست مخالفین اسلام ہمارے درمیان انتشار و تشنت کے خواہش مند ہوتے ہیں اور ہماری سب سے بڑی طاقت اتحاد کو افتراق میں بدلنے کے درپے رہتے ہیں، تاکہ وہ ہمارے تفرقہ سے فائدہ اٹھا کر ہم پر آسانی کے ساتھ حکومت کریں اور ظلم و ستم ڈھائیں«ان اقیمواالدین ولا تفرقوافیہ کبر علی المشرکین ما تدعوھم الیہ۔۔۔۔[سورۂ شوری، آیت:۱۳]ور دین کو قائم کرو اسمیں تفرقہ نہ پیدا ہونے پائے مشرکین کو وہ بات گراں گزرتی ہے جس کی تم انہیں دعوت دے رہے ہو»۔
اسی نکتہ کی طرف امام علی(علیہ السلام) اشارہ فرمارہے ہیں:«اور اللہ سے ڈرو اپنے جان، مال اور زبان سے جہاد کے بارے میں آپس میں ایک دوسرے سے تعلقات سلجھائے رکھو، ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور خبردار ایک دوسرے سے منھ نہ پھیرلینا اور تعلقات توڑ نہ لینا اور امربالعروف اور نہی عن المنکر کو نظر انداز نہ کردینا کہ تم پر اشرار کی حکومت ہوجائے اور تم فریاد بھی کرو تو اسکی سماعت نہ ہو[نہج البلازغہ،وصیت:۴۱، ص:۵۶۶]۔ دوسری جگہ آپ(علیہ السلام) ارشاد فرمارہے ہیں: «یقینا شیطان تمہارے لئے اپنی راہوں کو آسان بنادیتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایک ایک کر کے تمہاری ساری گرہیں کھول دے، وہ تمہیں اجتماع کے بجائے افتراق کے فتنوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے لہذا اس کے خیالات اور اسکی جھاڑ پھونک سے منھ موڑے رہو»[نہج البلاغہ، خطبہ:۱۲۱، ص:۲۳۹]۔
* نہج البلازغہ، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔
Add new comment