خداوند عالم کی بیان کردہ اخلاق کو اگر تعلیمات کی شکل میں دیکھنا ہو تو اس وجود کا نام قرآن ہے اور اللہ کے تعلیم کردہ اخلاق اور خصائل حمیدہ کو اگر ایک انسانی پیکر اور شخصی اسوہ و ماڈل کی صورت میں دیکھنا ہو تو ان کا نام محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ چنانچہ قرآن کی تعلیم اور پیغمبر اسلام کا عمل ہر زمانہ مین ہمارے لئے نمونہ عمل ہے حتی یہ چیز وحدت بین المسلمین میں بھی عائد ہوتی ہے۔
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قوموں کے عروج و زوال،ترقی و تنزلی،خوش حالی و فارغ البالی اور بد حالی کے تقدم وتخلف میں اتحاد و اتفاق،باہمی اخوت و ہمدردی اور آپسی اختلاف و انتشار اور تفرقہ بازی اور باہمی نفرت و عداوت کلیدی رول ادا کرتے ہیں،چنانچہ اقوام و ملل کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے اندر جب تک اتحاد و اتفاق پایا جاتا رہا تب تک وہ فتح ونصرت اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتے رہے اور جیسے ہی انہوں نے اتحاد و اتفاق کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار پھیلانا شروع کیا تو ان کو سخت ترین ہزیمت و شکست اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا نیز ساتھ ہی ساتھ اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کے فقدان کی وجہ سے ان قوموں کا نام صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔
کسی بھی قوم وملت کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے سب سے ضروری اور اہم چیزان کی صفوں میں اتحاد و اتفاق کا پایا جانا ہے،اتحاد ایک زبردست طاقت و قوت اور ایسا ہتھیار ہے کہ اگر تمام مسلمان متحد ومتفق ہو جائیں تو کوئی دوسری قوم مسلمانوں سے مقابلہ تودورکی بات آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتی۔
دوسری جانب اسمیں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ مسلمان متفکرین کے درمیان سیرت نبوی ہمیشہ ایک اہم موضوع رہا ہے ۔ حوادث اور واقعات خصوصا تاریخ اسلام کی تحلیل اور مختلف حوادث میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی برخورد ایسا موضوع ہے جس سے تاریخ اسلام کی تحلیل کرنے والے روبرو ہوتے رہتے ہیں ۔
سیرت نبوی کا تجزیہ و تحلیل کرتے وقت ، اسلامی اتحاد کے مسئلہ اور اس کو منتشر کرنے میں پیغمبر اکرم کا کردار ایسا اہم موضوع ہے جس سے ہر مسلمان متفکر کو روبرو ہونا پڑتا ہے ۔بیشک اس سلسلہ میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نصیحتیں، مسلمانوں کے لئے بہت ہی قیمتی گوہر ثابت ہوں گی کیونکہ خداوند عالم فرماتا ہے : ” لَقَدْ کانَ لَکُمْ فی رَسُولِ اللَّہِ اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کانَ یَرْجُوا اللَّہَ وَ الْیَوْمَ الْآخِرَ وَ ذَکَرَ اللَّہَ کَثیراً “ (سورہ احزاب ، آیت ۲۱) ۔ مسلمانو! تم میں سے ہر اس کے لئے رسول کی زندگی بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے ۔
”اسوہ “ یعنی رہبر، راہنما، نمونہ اور ”تاسی“ اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی کو اپنی زندگے لئے نمونہ عمل بنائیں ۔
لہذا اس آیت کے مطابق یہ تمام واقعات جیسے تاریخی واقعات جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زندگی اور ان کے عمل سے مرتبط ہیں وہ سب بہت ہی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور حجت و دلیل کے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں ۔ مسلمانوں کا بھی وظیفہ ہے کہ وہ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں غور وفکر کریں ۔
علامہ طباطبائی (رحمة اللہ علیہ) لکھتے ہیں : ”اسوہ“ کے معنی اقتداء اور پیروی کے ہیں ․․․ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے سلسلہ میں اسوہ کے معنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی ہے اور اگر ”لکم فی رسول اللہ“(رسول کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ عمل ہے ) کی تعبیر کودیکھا جائے تو گذشتہ میں استمرار پر دلالت کرتا ہے ، اسی وجہ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تم ہمیشہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی کرتے رہو اور آیت کے معنی یہ ہیں ان کے قول اور رفتار میں ان کی پیروی کرو ۔[۱]
معاشرہ کے سیاسی مسائل میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نقش آفرینی ، ان کی حکمتیں اور اہداف ، آنحضرت (ص) کی سیاسی سیرت پر بہترین دلیل ہیں ۔ اس نقطہ نظر سے ہدایت و راہنمائی میں پیغمبر اکرم کی تدابیراوراسلامی معاشرہ کی رہبری، معاشرہ کے سیاسی امور پر مدیریت کو مشخص کرتی ہے اور چونکہ ”اسلامی اتحاد کا مسئلہ“ ایک سیاسی موضوع ہے اس لئے اس کے متعلق پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کردار کی تحقیق نیز اس کے متعلق بہترین راستہ ، پیغمبر اکرم کی سیاسی سیرت کی وضاحت ضروری ہے،امت اسلام کو محفوظ رکھنے اور مسلمانوں کے لئے مستقبل میں بہترین راستہ دکھانے کیلئے اسلامی اتحاد کی تاثیر اس موضوع کی سیاسی کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے اور بے شک اس راستہ میں پیغمبر اکرم کے کردار پر نظر ڈالنے سے ہماری سیاسی سیرت کی تحلیل کا راستہ ہموار ہوجائے گا اور اس طرح یہ نمونہ عمل نیز پیغمبر اکرم کی اطاعت میں ایک مقدمہ ہوگا۔ ” مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ وَ مَنْ تَوَلَّى فَما أَرْسَلْناكَ عَلَيْهِمْ حَفيظاً “(سورہ نساء /۸۰)۔ جو رسول کی اطاعت کرے گا اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ لے گا تو ہم نے آپ کو اس کا ذمہ دار بناکر نہیں بھیجا ہے ۔
آج کے زمانہ میں دنیائے اسلام کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ،امت واحد کی تشکیل کیلئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سیرت ، ایک اصول ا ور معیار بن سکتی ہے ۔ اس ترتیب کی بنیاد پر اسلامی اتحاد نہ صرف پیغمبر اکرم کی سیرت کے تمام مباحث یاسیاسی سیرت ، بلکہ ایسے موضوع کے عنوان کے تحت ضروری اور لازمی ہوجاتا ہے جس میں آج اسلامی معاشرہ مبتلا ہے ۔اس وجہ سے تاریخ اسلام اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سیرت پر نظر ڈالنے سے آج کے زمانہ کے لئے بہترین دستورالعمل کواستخراج اوراستنباط کرنا ممکن ہوگا۔ ” يا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْناكَ شاهِداً وَ مُبَشِّراً وَ نَذيرا ( سورہ احزاب/۴۵ ) ۔بے شک اے پیغمبر ہم نے آپ کو گواہ ، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بھیجا ہے۔
آیات مذکورہ اور مطالب بالا سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پیغمبر اسلام ہمارے لئے بعثت سے قیامت تک اسوہ اور نمونہ ہیں اور آپ کی زندگی ہمارےلئےنا صرف عبادی پہلووں میں بلکہ سیاسی، فرہنگی اور اخلاقی پہلو وں میں بھی سرمشق زندگی ہے۔لہذا ہم تمام مسلمانوں پر ضروری اور واجب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کے ان پہلووں کو بخوبی مطالعہ کریں جس میں آپ (ص)نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کا اہتمام کیا ہے اور تمام مسلمانوں کو جگہ جگہ پر اس کے فوائد اور افتراق کے نقصانات سے آگاہ فرمایاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[۱] تفسیر المیزان، ج۱۶، ص۴۳۲، طبا طبائی، سید محمد حسین ، مترجم : موسوى همدانى سيد محمد باقر، دفتر انتشارات اسلامى جامعهى مدرسين حوزه علميه قم، قم، 1374 ش، چاپ پنجم،
Add new comment