وحدت کے معنی ایک مذہب کا دوسرے مذہب میں مل جانا، نہیں ہے؛ اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ سارے اسلامی مکاتب و مذاہب ایک مکتب و مذہب میں تبدیل ہوجائیں بلکہ وحدت یہ ہے کہ علمی بحث اور افکار و آراء کا تبادل جاری رہے اور اور شیعیان و اہل سنت مشترکہ مفادات اور مشترکہ دینی اصولوں اور عقائد کی بنیاد پر متحد ہوجائیں۔۔
وحدت کا مطلب یہ ہے کہ دو فرد، دو گروہ یا دو مذہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر زندگی بسر کریں اور آپس میں نزاع نہ کریں، لڑائی جھگڑا اور دشمنی نہ رکھتے ہوں ۔ ایک دوسرے پر تہاجم اور حملہ نہ کریں ایک دوسرے کے سے تجاوز نہ کریں اور آپس میں صبر و تحمل سے کام لیں ۔
حقیقت میں جو معنی وحدت کے ذکر ہوئے ہیں، وہ وحدت کے معنی نہیں ہیں بلکہ مسالمت آمیز اور ایک دوسرے سے متعرض نہ ہونے کے معنی ہیں ۔ متعرض نہ ہونا بذات خود، بہت مفید، پسندیدہ اور ضروری ہے، لیکن بہر حال یہ وحدت سے الگ معنی ہے اور دونوں ایک نہیں ہیں۔
خداوند عالم سوره انفال میں فرماتا ہے: ” وَ أَطِيعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَ اصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ “(سورہ انفال/۴۶) اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑ جاؤ اور تمھاری ہوا بگڑ جائے اور صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
یہ آیت کریمہ اسی متعرض نہ ہونے کے بارے میں ہے یعنی ایک دوسرے کے ساتھ نزاع اور جھگڑا نہ کرو اور ایک دوسرے کو تحمل و برداشت کرو ۔
ایک دوسرے کو تحمل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اسی دلیل کی بناپر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ھے " وَ اصْبِرُوا " صبر کرو یعنی مقاومت کرو ۔
وحدت کے معنی یہ ہیں کہ دو آدمی یا دو گروہ یا دو مملکت یگانگی و اتحاد میں اس درجہ پر پہنچ جائیں کہ دوسرے کی اچھائی و فائدہ کو اپنی اچھائی و فائدہ سمجھیں اور دوسرے کے ضرر اور نقصان کو اپنا ضرر و نقصان جانیں اور جس طرح اپنے حقوق سے دفاع کی کوشش کرتےہیں اسی طرح دوسرے کے حقوق کے دفاع کی کوشش کریں ۔ وحدت کے متعرض نہ ہونے سے عمیق اور بلند معنی ہیں ۔
خداوند سبحان کا ارشاد ہے: ” وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا “(سورہ آل عمران/ ۱۰۳)اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور متفرق نہ ہو ۔
یہ آیت کریمہ وحدت کے بارے میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت شریفہ میں اتحاد کا حکم دیا ہے ۔ اگرچہ آیت میں میں یگانگی اور بھائی چارگی و برادری کی تعبیر نہیں آئی ہے لیکن اس کے بعد کی دوسری آیت میں اللہ فرماتا ہے :
” وَ لا تَكُونُوا كَالَّذينَ تَفَرَّقُوا وَ اخْتَلَفُوا “(سورہ آل عمران/ ۱۰۳)ان لوگوں کی طرح نہ بنو جو متفرق و منتشر ہوگئے اور ایک دوسرے سے اختلاف کیا ۔
حضرت امیر المؤمنین (ع) نے اہل بصرہ کے بارے میں بڑی ظریف تعبیر استعمال کرتےہوئے فرمایا:” ُ الْمُجْتَمِعَةُ أَبْدَانُهُ “ تم اہل بصرہ کے صرف ابدان ایک دوسرے کے ساتھ ہیں [۱]۔
جب ایک سماج اور معاشرہ اس زمانے میں بصرہ کے لوگوں کے مانندہوگا، اور انسان نظر کرے گا تو ایک لاکھ آدمیوں، دو لاکھ آدمیوں یا پانچ لاکھ آدمیوں کو دیکھے گا ۔ لیکن یہ تمام لوگ یکہ و تنہا ہوں گے ، سب الگ ہوں گے ۔ اورہر ایک خود اکیلا نظر آئے گا ۔ہر انسان فقط اپنے منافع کو حاصل کرنے اور اپنے نقصانات کو دور کرنے کی فکر میں رہے گا اور دوسروں سے اس کا کوئی مطلب و سروکار نہیں ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[۱] نہج البلاغہ، خطبہ ۲۹، ص ۷۲، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: صبحی صالح ، انتشارات دار الهجره، قم۔
Add new comment