اتحاد اسلامی اور قومی شیرازہ بندی کی تعلیم

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده: اس مقالہ میں اتحاد بین المسلمین کی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے اور افتراق کے نقصان کی طرف بھی اشارہ کیا گیا اور اس بات کو ثابت کیا ہے کہ قرآن نے ہمیشہ اتحاد و یکجہتی کی طرف مسلمانوں کو دعوت دی ہے

اتحاد اسلامی اور قومی شیرازہ بندی کی تعلیم

جسد ملت میں فرقہ پرستی اور تفرقہ پروری کا زہر اس حد تک سرایت کرچکا ہے کہ نہ صرف اس کے خطرناک مضمرات کا کما حقہ احساس و ادراک ہر شخص کے لئَے ضروری ہے، بلکہ اس کے تدارک اور ازالے کے لئَے مئوثر منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے۔

ہمارے گردوپیش تیزی سے جو حالات رونما ہورہے ہیں، انکی نزاکت اور سنگین اس امر کی متقاضی ہے کہ ہم نوشتہ دیوار پڑهیں اور اپنے درمیان سے نفرت، بغض ، نفاق، تشنت اور انتشارات و افتراق کا خاتمه کر کے باہمی محبت و مودت، اخوت و یگانگی، یک جہتی اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کریں کہ اسی میں ہمارے بقاء اور فلاح و نجات مضمر ہے۔

زیر نظر نوشتار میں اہل اسلام میں فرقہ پرستی کے بڑهتے ہوئے رجحانات کا اجمالا جائزہ لیا گیا ہے اور قرآن کی روشنی میں اسکے انسداد کے لئے قابل عمل امت مسلمہ کے سامنے رکھا گیا ہے۔ملاحظہ کریں

ارشاد خداوندی ہے ، اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو کہ جنهوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا کہ ان کے لئے عذاب عظیم ہے. [1]

اس آیت میں خداوند عالم مسلمانوں کو حکم دے رہا ہے کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جنھوں نے اپنے دین کو فرقہ فرقہ میں بانٹ دیا، اس سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں [2] آپس میں اختلاف کرانا یہودیوں اور عیسائیوں کا پرانا طریقہ ہے کہ یہودی جناب موسی کے بعد ۷۱ فرقے ہوگئے اور عیسائی جناب عیسی کے بعد ۷۲، قیامت یہ ہے کہ مسلمان اتنی ہدایت کے باوجود ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوگئے، تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جن اسباب کی بناء پر یہودیوں پر عالمگیر تباہی کے سائے مسلط کردیئے گئے تھے اگر وہی اسباب امت مسلمہ میں جمع ہوگئے تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ ویسی ہی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تباہی امت مسلمہ کا مقدر بن سکتی ہے۔

یہاں قرآن حکیم قومی وحدت اور ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کی تعلیم دی رہا ہے نیز  متعدد مقامات پر ایسے  احکام صادر ہوئے ہیں،  جن میں مسلمانوں کو تفرقہ اور انتشار سے اجتناب کرنے اور اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینے کی تاکید کی گئی ہےکیوں کہ اس نوعیت کا اختلاف دوسرے تمام اختلافات سے خطرناک ہے، قابل توجہ بات یہ ہے کہ آیت ۱۰۴ اس آیت سے پہلے ہے  کہ جس میں ارشاد خداوندی ہے ولتکن منکم امه یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینهون عن المنکر و اولئک هم المفلحون.[3]

اور تم میں ایک گروه ایسا هونا چاهئے جو خیر کی دعوت دے، نیکیوں کا حکم دے، برائیوں سے منع کرے اور یهی لوگ نجات یافته هیں ۔ خداوند قدوس اس آیت میں امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کا حکم دے رها هے، یه اس لئے هے که قرآن مجید متوجه کر رها هے که هم همیشه خیر و اصلاح کی طرف دعوت  اور امر بالمعروف  و نهی عن المنکر کے ذریعه  اس وحدت کی حفاظت کریں، اگر اسلام کا یه بنیادی حکم ینی نیکی کی طرف دعوت دینا اور برائی سے روکنا، ختم هوجائے گا تو اسکے نتیجه میں وحدت اسلامی بھی نیست و نابود هو کر ره جائے گا۔

اب غور طلب سوال یه هے که جب قرآن کی نظر میں فرقه پرستی اتنی قابل مذمت اور انتشار و افتراق کی راه هے اور جب هم اس سے متنفر هیں تو یه لعنت کیوں همارے قومی وجود کو دیمک کی طرح کهوکهلا کر رهی هے؟ وقت آ پهنچا هے که هم فرقه پرستی کی زبانی مذمت پر هی اکتفا نه کریں ، بلکه اس کے خاتمے کے لئے لائحه عمل اختیار کریں ، جس پر سب مسالک اور مکاتب فکر متفق هو سکیں، اور اوائل اسلام  کی قومی وحدت کی یاد کو پهر سے تازه کر سکیں۔

 

حوالہ جات:
[1]   وَ لا تَكُونُوا كَالَّذينَ تَفَرَّقُوا وَ اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ ما جاءَهُمُ الْبَيِّناتُ وَ أُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ عَظيمٌ   آل عمران ۱۰۵
[2]  مجمع البیان ج۲ ص۸۰۷
[3]  آل عمران ۱۰۴

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
5 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 66