چکیده:مقالہ ھذا میں اتحاد بیں المسلمیں کی ضرورت کو قرآن کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے ۔
قرآن کریم کی نگاہ میں اتحاد بین المسلمین اور اسکی ضرورت
اسلام انسان کو تکامل تک لے جانے کے لئے اس دنیا میں بھیجا گیا۔" الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ "[1] آج میں نے تمھارے لئے تمھارے دین کو کامل کر دیا۔ خدا وند منان کی طرف سے کامل دین کا بھیجنا صرف اسی لیے ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو کمال تک پہچائے۔ دور حاضر میں زیادہ تر مسلمان ممالک میں شیعہ اور سنی ایک ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر معاشرہ میں شیعہ اور سنی آپس میں تفرقہ کے ساتھ رہینگے تو یہ بات بہت واضح ہے کہ مسلمان معاشرے اور ممالک کسی بھی طریقہ سے ترقی نہیں کرپائینگے، اور یہی اسلام کے دشمنوں کی خواہش ہے کیونکہ استکبار کی اسلام دشمنی اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ دوسری طرف مسلمان ممالک کے اندرونی مسائل مثلا غربت، جہالت، بی روزگاری وغیرہ نے انکو گھیرے میں لیا ہوا ہے، اگر بدامنی اور تفرقہ کا مسئلہ بھی ان مسائل میں شامل ہو جائے تو اسلام دشمنوں کا مقابلہ تو دور کی بات، اسلامی ممالک کی اپنی حیثیت خطرہ میں پڑ جائیگی اور اس بات کا مشاہدہ ہم پاکستان، افغانستان اور عراق میں بہت آسانی سے کرسکتے ہیں۔
آج نہ اسلام کی فکر باقی ہے نہ ملک و ملت کی۔ سب ذاتی مفادات کے حصول اور قوم کو تقسیم در تقسیم کر کے اس کی لٹیا ڈبونے میں مصروف ہیں۔ اگر ہم ملک و قوم کی بقا اور استحکام چاہتے ہیں تو ہمیں ان گروہ بندیوں، نسلی و لسانی تعصبات سے پاک ہو کر ملت اسلامیہ کی بالادستی کے لئے کام کرنا ہوگا.
قرآن میں اتحاد کی تاکید اور تفرقہ سے پرہیز پر متعدد آیات موجود ہیں۔ ہم بطور مثال چند آیات کو پیش کرتے ہیں۔قرآن رسول خدا (ص) کی رسالت پر ایمان رکھنے والوں کو برادری کی دعوت دیتا ہے۔"إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ " [2]بیشک مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرو اور خدا کا تقویٰ اختیار کرو، شاید خدا کی رحمت تمھارے شامل حال ہو جائے۔ اس آیہ شریفہ میں مومنین کو برادری کی دعوت دی گئی ہے اور آپس میں تفرقہ سے بچنے کا کہا گیا ہے تاکہ قرآنی اصول " أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُم "[3] کے مطابق اسلام کے سایہ تلے محبت اور الفت کے ساتھ مومنین مل جل کر زندگی گزار سکیں۔" وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا"[4] اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرومفسرین اس آیہ شریفہ کے ذیل میں یہ فرماتے ہیں کہ خدا کی رسی کو تھامنا یعنی خدا کی آیات اور رسول (ص) آل رسول ؑسے تمسک ہے کہ امت اگر ایسا کریگی، تو ہدایت پائیگی کیونکہ قرآن اور رسول اکرم (ص) کی ہدایت صرف اور صرف خدا تک پہچاتی ہے۔ لیکن اگر ان ہدایات سے دوری ہوگی تو نتیجتاً آپس میں تفرقہ پیدا ہوگا کہ جس کا انجام اسلام کی کمزوری میں ظاہر ہوگا۔
اسی مطلب کو ایک دوسرے انداز میں قرآن نے کچھ اسطرح بیان کیا" وَ أَطيعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لا تَنازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ ريحُكُم"[5]اور خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا رعب و دبدہ ختم ہوجائے گا۔پس ان آیات قرآنی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہر وہ کام کہ جو اخوت اور بھائی چارگی کے خلاف ہو، وہ قرآن کے احکامات کے منافی ہوگا۔
وحدت اور بھائی چارگی کی راہ کے اہم ترین کاموں میں سے ایک کام، ایک دوسرے کے دینی مقدسات اور محترم ہستیوں کا احترام کرنا ہے اور انکا نام احترام سے لینا ہے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے مذہبی رہنمائوں اور علماء کی بی احترامی نہ ہو تو دوسرے بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس اصل کو حتی بت پرستوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے۔ " وَ لا تَسُبُّوا الَّذينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْم" [6]گالی مت دو ان کو جن کو یہ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں، مبادا وہ عداوت اور نادانی میں اللہ کو برا کہنے لگیں۔
رسول اور آل رسول نےبھی ان باتوں سے شدت اورسختی سے منع فرمایاہے جن سے دلوں میں فرق پڑے اورپھوٹ کاخطرہ بھی ہو۔دودوچارچار الگ کاناپھوسی کریں ا س سے شیطان دلوں میں بدگمانی پیداکرسکتاہے۔اس سے منع فرمایاگیا اوراس کو شیطانی کام بتایاگیا۔ "إِنَّمَا النَّجْوى مِنَ الشَّيْطانِ لِيَحْزُنَ الَّذينَ آمَنُوا وَ لَيْسَ بِضارِّهِمْ شَيْئاً إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّه"[7].
اسی طرح تحقیراوراستہزاء اورتمسخر سے منع فرمایاگیا۔'' لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسى أَنْ يَكُونُوا خَيْراً مِنْهُم''[8]اس سے بھی منع فرمایاگیا کہ دوسرے کی کوئی برائی جومعلوم نہ ہو اس کو تجسس کرکے معلوم کیاجائے اور جو برائی کسی کی معلوم ہوگئی ہو اس کو دوسروں کو سامنے ذکرکرنے سے منع فرمایاگیاہے اور غیبت کو حرام کیاگیا۔غیبت اس کانام ہے کہ جو واقعی برائی کسی کی معلوم اس کا ذکر کسی سے کیاجائے۔ "و لا تَجَسَّسُوا وَ لا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضا "[9]یہ تحقیر اورتمسخر اورغیبت وہ سب چیزیں ہیں جوآپس میں تفرقہ پیداکرکے امت کو توڑ تی ہیں۔ ان سب کو حرام قراردیاگیا۔اورایک دوسرے کا اکرام واحترام کرنا جس سے امت جڑتی ہے اس کی تاکید فرمائی گئی اوردوسروں سے اکرام چاہنے سے منع گیاگیا۔کیونکہ اس سے امت بنتی نہیں بگڑتی ہے۔
قارئین کرام ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ امت کسی ایک قوم اورایک علاقہ کے رہنے والوں کانام نہیں ہے بلکہ سینکڑوں ،ہزاروں قوموں اورعلاقوں سے جڑکرامت بنتی ہے جو کوئی کسی ایک قوم یاایک علاقہ کو اپناسمجھتاہے اوردوسروں کو غیرسمجھتاہے وہ در اصل امت کوذبح کرتاہے۔ امت کوٹکرے ٹکرے ہوکر پہلے ہم نے خود ذبح کیاہے۔یہودونصاریٰ نے تواس کے بعد کٹی کٹائی امت کوکاٹاہے۔اگرمسلمان پھرایک امت بن جائیں تو دنیاکی ساری طاقتیں مل کر بھی ان کابال بانکانہیں کرسکیں گے اورراکٹ ان کو نہیں ختم کرسکیں گے، روس اورامریکہ کی طاقتیں بھی ان کے سامنے جھکیں گی ۔لیکن اگر وہ قومی اورعلاقائی عصبیتوں کی وجہ سے باہم امت کے ٹکرے کرتے رہے تو خداکی قسم تمہارے ہتھیار اورتمہاری فوجیں تم کونہیں بچاسکیں گی۔
یہ امت حضور کے خون اورفاقوں سے بنی تھی اب ہم اپنی معمولی معمولی باتوں پر امت کوتوڑرہے ہیں ۔ اگرمسلمانوں میں امت آجائے تو وہ دنیا میں ہرگز ذلیل نہ ہوں گے۔روس اورامریکہ کی طاقتیں بھی ان کے سامنے جھکیں گی اورامت پناجب آئے گا جب اذلۃ علی المومنین پر مسلمانوں کا عمل ہو ،یعنی ہرمسلمان دوسرے مسلمان کے مقابلے مین چھوٹا بننے اورذلت وتواضع اختیار کرنے کو اپنائے۔
آپ جانتے ہیں کہ منتشر اینٹیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں‘ انہیں یکجا کر دیا جائے تو عمارت بنتی ہے‘ بکھرے ہوئے موتی اکٹھے ہو جائیں تو گلے کا ہار بن جاتا ہے۔ امت کے تمام طبقات اس پر متوجہ ہوں پھر یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] سورہ مائدہ/ ۳.
[2] الحجرات/ ۱۰.
[3] الفتح/29۔
[4] آل عمران/۱۰۳۔
[5] انفال/46۔
[6] انعام/۱۰۸.
[7] المجادلہ/10۔
[8] الحجرات/11۔
[9] الحجرات/12۔
Add new comment