خلاصہ: انسان کو چاہئے کہ خدا کو اپنا وکیل قراردے اور اس پر بھروسہ کرے اور خود بھی ہمت اور کوشش کرتا رہے بلکہ جہاں کسی کام کو خود انجام دینے کی طاقت رکھتا ہو وہاں بھی موٴثر حقیقی خدا ہی کو مانے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان, زندگی کی مشکلات و حوادث کو خود دور کرنے کی طاقت نہیں رکھتا, اسی لئے اسے چاہئے کہ خدا کو اپنا وکیل قراردے اور اس پر بھروسہ کرے اور خود بھی ہمت اور کوشش کرتا رہے بلکہ جہاں کسی کام کو خود انجام دینے کی طاقت رکھتا ہو وہاں بھی موٴثر حقیقی خدا ہی کو مانے، کیونکہ خدا پر توکل کرنے میں خود انسان کی ہی سعادت ہے، جیسا کہ حضرت علی(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: «مَنْ تَوَكَّلَ عَلَيْهِ كَفَاهُ الْأُمُور، جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے، خدا اسکے کاموں کے لئے کافی ہے»[جامع الأخبار(للشعيري)، ج:۱، ص:۱۱۷]۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جبرئیل سے سوال کیا کہ توکّل کے معنی کیا ہے، جبرئیل نے کہا: توکّل کے معنی یہ ہے کہ انسان اس بات کا یقین رکھے کہ فائدہ اور نقصان، لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں ہیں، اور ضروری ہے کہ لوگوں سے ناامید ہوجائے، اگر بندہ معرفت کے اس درجہ پر پہونچ جائے کہ سوائے خدا کی مرضی کے کوئی کام انجام نہ دے اور کسی سے امید لگاکر نہ بیٹھے، اور کسی سے نہ ڈرے، یہی توکل ہے۔[بحار الأنوار، ج:۶۸، ص:۱۳۸]
*جامع الأخبار(للشعيري)، محمد بن محمد شعيري، مطبعة حيدرية - نجفج:۱، ص:۱۱۷.
*بحار الأنوار، محمد باقر مجلسى، ج:۶۸، ص:۱۳۸، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ ق۔
Add new comment