اہل سنت درود کو یا تو ابتر طریقے سے پڑھتے ہیں یا پھر آل محمد کے ساتھ اصحاب کا بھی لاحقہ لگا دیتے ہیں؛کہ دونوں ہی صورتوں میں مطابقِ سنت عمل نہیں کرتے ؛اس بارے میں کہ کیوں اہل سنت کلمہء «آل محمد»کو درود میں شامل نہیں کرتے، بعض محققین کا ماننا ہے کہ بنی امیہ نے اس بدعت کو اہل سنت میں رائج کردیا تھا،لیکن قابل غور نکتہ اور مقامِ سوال یہ ہے کہ اہلسنت ابھی تک کیوں اسی بدعت سے وابسطہ ہیں جبکہ اہل سنت کو سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ پر عمل کرنا چاہیئے ناکہ بنی امیہ کی رائج کردہ بدعت پر۔
اہل سنت کے روائی منابع میں متعدد ایسی روایات موجود ہیں کہ جو واضح طور پر یہ بیان کرتی ہیں کہ جب بھی تم صلوات بھیجو تو محمد و آل محمد پر صلوات بھیجو۔
ایک روایت کہ جسے بخاری اور مسلم نے اور ساتھ ہی جسے صحاح ستّہ کے دیگر مؤلفین نے بھی نقل کیا ہے منقول ہے کہ ایک شخص پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں مشرف ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! کس طرح آپ پر درود بھیجا جائے،حضرت(ص) نے ارشاد فرمایا: تم کہو: اللهم صل علی محمد و علی آل محمد[۱:صحیح بخاری]بخاری نے اسے اپنی کتاب میں چار جگہوں پر نقل کیا ہے[۲: صحیح بخاری،ج8، ص77] ساتھ ہی مسلم، نے صحیح مسلم میں [۳: صحيح مسلم، ج1، ص305.] اور سنن ابنماجه[۴: سنن ابن ماجه، ج1، ص292؛ ج1، ص293] اور ابی داؤد[۵: سنن أبى داود،ج1، ص257؛ ج1، ص258] اور ترمذی[۶:سنن الترمذى،ج1، ص610؛ ج5، ص212] اور نسائی[۷:نسائي،ج3، ص45؛ ج3، ص47؛ ج3، ص48]میں بھی مختلف مقامات پر اسے نقل کیا ہے۔
ان تمام روایات میں بالکل واضح طور پر موجود ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا ہے کہ:جب بھی تم مجھ پر صلوت بھیجو تو آل محمد کا بھی نام میرے نام کے ساتھ ذکر کرو۔
اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ اہل سنت صلوات کو ابتر طریقے «صلی الله علیه و سلم» سے کیوں پڑھتے ہیں ؛یا اگر آل محمد کا اضافہ کرتے بھی ہیں تو ساتھ ہی «اصحاب» کا لاحقہ کیوں لگادیتے ہیں،اور صلوات کو ابتر یا دُم کٹابنادیتے ہیں اور سنت کے مطابق عمل نہیں کرتے،یا لفظِ «اصحاب» کا اضافہ کرکے دین میں بدعت ایجاد کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔
یہ وہ روش ہے کہ جسے تمام اہل سنت تمام ممالک میں اپنائے ہوئے ہیں؛ایک دوسرا سوال جو یہاں پر پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کی وجہ اور علت کیا ہے؟اہل سنت ایسا رویّہ کیوں اپنائے ہوئے ہیں یا وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
نبراس نامی کتاب پر حاشیہ لگانے والے حنفی مذہب عالم نے اس کا جواب کچھ یوں دیا ہے:«بعض محققین کا نے بیان کیا ہے کہ:اس بات کہ علت کہ جو محدیثین نے صلوات سے آل کا لفظ حذف کردیا ہے یہ ہے کہ امویوں اور عباسیوں کا غلبہ اور ان کی ممانعت تھی؛وہ لوگ درود کے بجائے آل محمد پر سبّ و لعن کیا کرتے تھے(وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون.)»[۸:نبـراس شرح لشرح العقائد النسفیه،ص10]
یہ بات بالکل درست اور صحیح ہے، کیونکہ اہل بیت سے معاویہ اور بنی امیہ کی دشمنی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے یہ فضائل امام علیؑ اور اہل بیت کے ذکر سے روکا کرتے تھے اور جنہوں نے اہل بیت اور بالخصوص امام علی پر تاریخِ اسلام میں سبّ و لعن کا ایک طویل عرصہ جاری رکھا تھا،جس کے نتیجے میں ان کی من جملہ دیگر بدعات میں سے ایک بدعت جو اہل سنت مسلمانوں کے یہاں جڑ پکڑ گئی وہ یہی ایک بدعتِ سئیّہ ہےکہ سنّی مسلمان ابتر صلوات پڑھتے رہیں اور پیغمبر کے حکم کے برخلاف اصحاب کا بھی اضافہ کرتے رہیں ۔
یہ نظریہ اگرچہ کہ درست اور صحیح ہے،لیکن بات اِس زمانے کی ہے کہ کیوں اہل سنت اس دور میں کہ جب بنی امیہ کا نام و نشان مٹ چکا ہے،تحقیق کا دروازہ کھلا ہے ؛ کتاب و سنت کی طرف رجوع نہیں کرتے اور اس کے مطابق عمل نہیں کرتے اور بنی امیہ کی بدعتِ سئیّہ پر زور دیئے ہوئے ہیں؟یہ وہ سوال ہے کہ جس کا جواب مجھے نہیں مل پایا ،امید کرتا ہوں کہ جو بھی اہلسنت اس مقالہ کا مطالعہ کررہا ہے اس کے پاس اس سوال کا جواب ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
[1]. «يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ عَلِمْنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكَ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ قَالَ: " فَقُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ» بخارى، محمّد، صحيح البخاري، تحقيق: محمد زهير بن ناصر، دار طوق النجاة، چاپ اوّل، 1422ق، ج8، ص77۔
[2]. بخاری، صحیح بخاری، ج4، ص146؛ بخاری، صحیح بخاری، ج6،ص120 و 121۔بخاری، صحیح بخاری، ج8، ص77۔
[3]. نيشاپورى، مسلم، صحيح مسلم، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقى، دار إحياء التراث العربى، بيروت، بى تا، ج1، ص305۔
[4]. ابن ماجه قزوينى، محمّد، سنن ابن ماجه، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، دار إحياء الكتب العربية، بى تا، ج1، ص292؛ ج1، ص293.
[5]. ابوداود سجستانى، سليمان، سنن أبى داود، تحقيق: محمد محيى الدين عبد الحميد، المكتبة العصرية، بيروت، بى تا، ج1، ص257؛ ج1، ص258۔
[6]. ترمذى، محمّد، سنن الترمذى، تحقيق: بشار عواد معروف، دار الغرب الإسلامى، بيروت، 1998م، ج1، ص610؛ ج5، ص212۔
[7]. نسائي، احمد، السنن الصغرى، تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة، مكتب المطبوعات الإسلامية، حلب، چاپ دوّم، 1406ق، ج3، ص45؛ ج3، ص47؛ ج3، ص48.
[8]. «قال بعض المحققین ترک المحدثون لفظ الآل عندالصلاة علی خاتم الرسول لغلبة الامویة والعباسیة لانهم یمنعون ذلک بل یسبون وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون.» نبـراس شرح لشرح العقائد النسفیه، مولاناحافظ عبد العزیز فرهاری، ص10، کتاب خانه اکرمیه،پیشاور، پاکستان1318 ق۔
Add new comment