شیخ محمد ابن عبد الوہاب علماء اہل سنت کی نگاہ میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

محمد ابن عبد الوہاب کی زندگی پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ اپنی ابتدائی تعلیم ہی سے گمراہ کن عقیدوں کا حامل تھا، جسکی تصدیق تمام علماء نے اعم از شیعہ و سنی نے کی ہے۔

شیخ محمد ابن عبد الوہاب علماء اہل سنت کی نگاہ میں

     حنبلیت کی مسخ شدہ دوسری مکروہ صورت کا نام "وہابیت" ہے، حنبلی مذہب کے بانی امام احمد ابن حنبل جو 164 ہجری قمری میں بغداد کی سرزمین پر پیدا ہوئے اور انھوں نے امام شافعی سے علم فقہ حاصل کیا، لیکن بعد میں اپنے استاد شافعی سے 135 فقہی مسائل میں اختلاف کر کے انھوں نے ایک نیا مسلک ایجاد کیا جو انھیں کے نام سے منسوب ہوکر حنبلی مسلک کہلایا اور اسے ابن تیمیہ نیز اسکے شاگردوں نے اپنے قلم کے ذریعہ عام کیا، چنانچہ وہابیوں کے پیشوا"شیخ محمد" کے والد"عبد الوہاب" بھی اسی حنبلی مسلک سے وابستہ تھے اور اپنے ابتدائی دور میں "شیخ محمد"بھی اس کا پیروکار تھا، بعد میں وہ ابن تیمیہ اور اسکے شاگردوں ابن قیم اور ابن عبد الہاد وغیرہ کی کتابیں پڑھ کر ان کے افکار و خیالات سےمتأثر ہوکر گمراہ ہوگیا، جس کے نتیجہ میں اس نے حنبلی عقائد و مسائل میں ترمیم و تنسیخ کے بعد ایک نئےمسلک کو جنم دیا جو وہابیت کے نام سے مشہور ہوا۔
چنانچہ اس مختصر مقالہ میں وہابی مذہب کو ترویج دینے والے "محمد ابن عبد الوہاب " کے بارے میں علماء اہل سنت کے اقوال کو جمع کیا گیا تاکہ اس کی حقیقت قارئین کے سامنے روشن ہوسکے۔
حافظ ثناء اللہ عثمانی اپنی کتاب "نجدیوں کی دنیا" میں رقم طراز ہیں:
"شیخ محمداپنے والد کی درسگاہ میں جب پڑھنے کی غرض سے حاضر ہوتے تو اسلامی معمولات کو بدعات سے تعبیرکرکے ان پر اعتراضات اور پیغمبر اسلام  کی تکذیب کیا کرتے تھے جن کی وجہ سے تمام لوگ ان کے مخالف ہوگئے تھے، شیخ عبد الوہاب نے بھی اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے متعدد بار انھیں  سختی سے ساتھ ڈانٹا پھٹکارا لیکن وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیخ عبد الوہاب کے حلقہ درس کے طلباء میں دو گروہ ہوگئے، اکثریت شیخ عبد الوہاب کے ساتھ رہی اور اقلیت شیخ محمد کی حامی بن گئی۔[1]
شیخ سلیم نجدی اپنی کتاب" اسلام اور وہابیت" میں لکھتے ہیں کہ:
"چھ سال تک شیخ محمد اپنے والد (شیخ عبد الوہاب)فقہ کی تعلیم حاصل کرتے رہے لیکن بعد میں مسلکی اختلافات کی بناء پر انھوں نے یہ سلسلہ منقطع کردیا اور حجاز چلے گئے، وہاں انھیں عبد اللہ ابن ابراہیم سیف اور محمد حیات سندھی دو غیر مقلداستاد ملے جنہوں نے ابن تیمیہ کی کتابیں پڑھا کر انھیں اسلاف کی روایات سے اور بھی باغی بنادیا"۔[2]
سردار محمد حسنی لکھتے ہیں:
"شیخ نجدی حصول علم کے لئے مدینہ گئے، وہاں ان کی ملاقات محمد حیات سندھی سے ہوئی جو انتہائی متعصب قسم کے غیر مقلد عالم تھے اور حضور اکرم سے امداد طلب کرنے کو شرک قرار دیتے تھے، انھوں نے شیخ نجدی کو یہ تعلیم دی"۔[3]

عثمان ابن بشیر نجدی نے اپنی کتاب "تاریخ نجد" میں ایک واقعہ یہ بھی نقل کیا ہے کہ:
"شیخ محمدنجدی ایک دن حجرہ بنویہ کے سامنے کھڑا تھا اور وہاں لوگ رسول اکرم کے وسیلے سے دعائیں مانگ رہے تھے شیخ محمد نے اپنے استاد شیخ حیات سے پوچھا کہ ان لوگوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اس نے جواب دیاکہ ان کے اعمال باطل ہیں اوریہ لوگ بہت جلد تباہ ہونے والے ہیں"۔[4]
علامہ طنطناوی اپنی کتاب"محمد بن عبد الوہاب" میں رقم طراز ہیں کہ:
"مدینہ منورہ میں شیخ نجدی کی ملاقات دو ایسے شخصوں سے ہوئی جو اس کی زندگی کا رخ بدلنے میں بہت موثر ثابت ہوئے ان میں پہلا شخص نجد کا ایک با اثرعالم تھا جس کو مدینہ کے عوام میں ریاست کا درجہ حاصل تھا اس کا نام عبد اللہ بن ابراہیم بن سیف تھا اور اس کا اوڑھنا بچھونا ابن تیمیہ کی کتابیں تھیں، ایک دن شیخ نجدی جب  اس کے پاس بیٹھا تھا تو اس نے کہا، کیا تم ان ہتھیاروں کو دیکھنا چاہو گے جنہیں میں نے عام مسلمانوں کو شکست دینے کے لئے محفوظ کر رکھا ہے؟ نجدی نے کہا، ہاں پھر وہ اسے ایک کمرے میں لے گیا جو ابن تیمیہ اور اس کے شاگردون کی کتابوں سے بھرا ہوا تھا ابن سیف نے کہا، یہی وہ ہتھیار ہیں جنہیں تم بڑی آسانی سے مسلمانوں پر استعمال کرسکتے ہیں۔[5]
شیخ محمد کے دوسرے استاد شیخ محمد حیات سندھی کے بارے میں علامہ موصوف لکھتے ہیں:
"یہ شخص، صالحین امت کی عظمتوں اور خانوادہ رسالت کی فضیلتوں کا سخت منکر تھا، حضور اکرم سے شفاعت طلب کرنے والوں اور استمداد و استغاثہ پر عقیدہ رکھنے والوں کو مشرک و کافر کہہ کر اسلامی اقدار و روایات کا مذاق اڑایا کرتا تھا، قرآن مجید میں مشرکین کے لئے جو آیتیں نازل ہوئی ہیں، انھیں  مسلمانوں پر چسپاں کیا کرتا تھا، اس نے شیخ نجدی کو بھی رسول کریم کے احترام و تعظیم سے منع کیا اور کہا جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ عنقریب تباہ ہونے والے ہیں اور جس کام میں مشغول ہیں برباد کرنے والا ہے۔[6]
مندرجہ بالا اقتباسات کی روشنی میں یہ امر بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ ابن سیف اور محمد حیات سندھی کی تعصب آمیز اور غلط تعلیمات نے شیخ نجدی کے تخریبی ذہن میں صدیوں پرانی اسلامی روایات کے خلاف باغیانہ افکار بھردئے تھے، چنانچہ حجاز سے پلٹ کر جب وہ اپنے وطن آئے تو ان کے خیالات میں بد عقیدگی کی بھرپور شدت پیدا ہوچکی تھی اور انھوں نے طے کرلیا تھا کہ انجام خواہ کچھ بھی ہو لیکن وہ سابقہ اسلامی روایات و معمولات کے خلاف اپنی امکانی کوششوں سے دستبردار نہیں ہوں گے، چنانچہ انھیں اپنی ان ناروا کوششوں کے نتیجے میں مسلمانوں کی مخالفت کے علاوہ اپنے باپ کی طرف سے لعنت،  ملامت اور سختیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا اور باپ بیٹے کے درمیان متعدد بار تلخ کلامی ، توتو میں میں، ہاتھا پائی اور مارپیٹ کی نوبت بھی آئی جس کے نتیجے میں شیخ عبد الوہاب کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا، جس کا اعتراف مولوی منظور نعمانی نے اپنے ایک مقالے میں ان لفظوں کے ساتھ کیا ہے:۔
"شیخ عبد الوہاب حنبلی اگر چہ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم اور فقیہ تھے لیکن وہ اپنے خاص صوفیانہ مزاج اور مسلک کی وجہ سے اپنے بیٹے شیخ محمد کی برپا کی ہوئی تحریک سے الگ رہے، بلکہ انھوں نے اپنے کو الگ رکھنے کے لئے اپنے اصل وطن عیینہ کی سکونت ترک کر کے اسی علاقہ کے ایک دوسرے مقام حریملہ میں سکونت اختیار کرلی تھی، کیونکہ عیینہ شیخ محمد کی تحریک کا مرکز بن چکا تھا۔[7]

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
 [1]نجدیوں کی دنیا، ص29۔
[2] اسلام و وہابیت،ص33۔
[3] سلطان بن عبد العزیز، ص40 41۔
[4] تاریخ نجد، ج1، ص8۔
[5] محمد بن عبد الوہاب،ص15، 16۔
[6] محمد بن عبد الوہاب، ص17۔
[7] ماہنامہ المنیرفیصل آباد،ج3،ص6۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 81