خلاصہ: دنیا کو ایک عادلانہ نظام فراہم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اصلاح امت کا بنیادی فریضہ انجام دیا جائے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام حسین(علیہ السلام) کے قیام کا محرک اس وقت کے مسلمانوں کی ابترحالت اور خاص کر اس زمانہ کی حکومتوں کا طرزِ عمل تھا جس کی وجہ سے حدودِ الٰہی معطل تھے، فقراء برے حال میں تھے اور بیت المال کے اموال ناجائز طریقوں سے خرچ ہو رہے تھے، امام حسین(علیہ السلام)، اس صورتحال کے خاتمہ کے لئے خود کو دوسروں سے زیادہ ذمہ دار سمجھتے تھے کیونکہ آپ نواسۂ رسول اور امامِ مسلمین تھے اور ان حالات کو خاموش تماشائی کی حیثیت سے نہیں دیکھ سکتے تھے، اسی لئے امام(علیہ السلام) نے اپنے قیام کے اہداف و مقاصد واضح فرمائے، چنانچہ اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کو ایک وصیت نامہ میں امام(علیہ السلام) نے اس طرح ارشاد فرمایا: «إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي؛ میں صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کی غرض سے نکل رہا ہوں»۔[بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۶۹.]
برائیوں اور مفاسد کو دور کرنے اور دنیا کو ایک عادلانہ نظام فراہم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اصلاح امت کا بنیادی فریضہ انجام دیا جائے۔ یہ فریضہ انجام دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ امام حسین(علیہ السلام) کے فرامین، کردار، سیرت، عمل اور جدوجہد سے استفادہ کریں، اصلاح امت کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اپنے مسلکی، فروعی، ذاتی اور جماعتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اصلاح امت کا کام جاری رکھیں۔
* بحار الانوار، محمد باقر مجلسى، دار إحياء التراث العربي، ج۴۴، ص۲۶۹، ۱۴۰۳ ق.
Add new comment