خلاصہ: انسان کے دو طرح کے دشمن ہیں: اندرونی اور بیرونی، اس سلسلے میں مختصر گفتگو کی جارہی ہے۔
ایک لحاظ سے انسان کے دو دشمن ہیں: ایک اندرونی دشمن ہے اور دوسرا بیرونی دشمن۔ اندرونی دشمن "نفسانی خواہش" ہے اور بیرونی دشمن شیطان ہے۔ یہ دشمن، انسان کو اللہ کی عبادت سے روکتے ہیں۔
اندرونی دشمن جو نفسانی خواہش ہے، اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زبانی سورہ یوسف کی آیت ۵۳ میں ارشاد فرمایا ہے: "وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ"، "اور میں اپنے نفس کو بھی بری نہیں قرار دیتا کہ نفس بہرحال برائیوں کا حکم دینے والا ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے کہ وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے"۔
اور بیرونی دشمن یعنی شیطان کو کئی آیات میں "عَدُوٌّ مُّبِينٌ، کھلا ہوا دشمن" کہا گیا ہے، جیسے سورہ یس کی آیت ۶۰ میں ارشاد الٰہی ہے: "أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ"، " اے اولادِ آدم! کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ شیطان کی پرستش نہ کرنا؟ کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے"۔
ان دو دشمنوں میں سے کون سا دشمن، انسان سے زیادہ دشمنی کرتا ہے؟ نفسانی خواہش یا شیطان؟ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ارشاد فرماتے ہیں: "أعدى عَدوِّكَ نَفسُكَ الَّتي بَينَ جَنبَيكَ"، "تمہارے سب سے بڑا دشمن تمہارا نفس ہے جو تمہارے دو پہلوؤں میں ہے"۔ [بحارالانوار، ج۷۰، ص۳۶]
شیطان اسی نفسانی خواہش کے ذریعے انسان کو دھوکہ دیتا ہے اور اللہ کی عبادت سے روکتا ہے، براہ راست نہ دھوکہ دے سکتا ہے اور نہ روک سکتا ہے۔ باہر سے جتنے دشمن ہیں چاہے جنّ ہیں یا انسان، یہ سب دشمن اسی نفسانی خواہش کے ذریعے انسان کو گمراہ کرتے ہیں۔
* بحارالانوار، ج۷۰، ص۳۶، علامہ مجلسی، مؤسسةالوفاء۔
* پہلی آیت کا ترجمہ از: علامہ ذیشان حیدر جوادی صاحب۔
* دوسری آیت کا ترجمہ از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment