خلاصہ: اسلامی معاشرے میں منافق ظاہری طور پر مسلمان ہوتا ہے اور دل سے کافر ہوتا ہے، اگر مسلمان قوم کا آپس میں اتحاد نہ ہو تو منافق کو موقع مل جاتا ہے کہ اسلام سے اپنی دشمنی کی بنیاد پر اپنے کفر کو معاشرے پر مسلط کردے۔
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی رحلت کے وقت مدینہ میں کتنے مسلمان موجود تھے، اس کے باوجود جب آپؐ کی رحلت کے بعد خلافت کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف پڑا تو یہ اختلاف کرنے والے سب بظاہر مسلمان تھے۔
روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ اس اختلاف کی ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ غدیر خم میں اتنے عظیم مجمع میں رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ اسلام) کی ولایت و خلافت کا اعلان کردیا تھا اور مسلمانوں سے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی بیعت لے لی تھی۔ لہذا آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اب خلیفہ کس کو بنایا جائے! خلیفہ تو پہلے سے مقرر کیا جاچکا ہے اور کسی آدمی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ خلیفہ مقرر کرے۔
اگر بالفرض کسی کو شک پڑتا ہے یا غلطی کا شکار ہوگیا ہے یا کسی بھی وجہ سے وہ حق کو اب پہچاننا چاہتا ہے تو فرمانِ رسالتؐ سے پہچان کا معیار قائم کیا جاچکا تھا۔ اہل سنت کے علماء میں سے علامہ فخرالدین رازی نے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے روایت نقل کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: "اللَّهُمَّ أَدِرِ الْحَقَّ مَعَ عَلِيٍّ حَيْثُ دَارَ"، "بارالہا، حق کو علیؑ کے ساتھ پھیر دے جدھر وہ پھر جائیں"۔ [مفاتیح الغیب، ج۱، ص۱۸۰]
لہذا مسلمانوں کو چاہیے تھا رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی رحلت کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) کے حضور میں شرفیاب ہوجاتے اور سب آپؑ کی امامت و خلافت کو غدیر خم کے موقع کی طرح تسلیم کرلیتے، اگر سب مسلمان متحد ہوکر حق کی پیروی کرلیتے تو ظاہری مسلمان جو حقیقت میں منافق تھے اور اسلام کے سخت دشمن تھے، ان کو اس وقت اختلاف ڈالنے اور دشمنی کرنے کا موقع ہی نہ ملتا۔
* مفاتيح الغيب، ج۱، ص۱۸۰، فخرالدین رازی، الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت، الطبعة: الثالثة - 1420 ھ۔
Add new comment