خلاصہ: جب رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے دلائل دینے سے نجران کے عیسائی قائل نہ ہوئے اور اپنے باطل عقیدے یعنی حضرت عیسی (علیہ السلام) کی خدائی پر ڈٹے رہے تو پیغمبر اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کو مباہلہ کرنے کے لئے پکارا۔ مباہلہ کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم سورہ آل عمران کی ۶۱ ویں آیت میں ہے۔ اب اس مضمون میں مباہلہ کے طریقہ کو بیان کرتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقررہ دن کو حضرت علی (علیہ السلام) کا ہاتھ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ہاتھ میں تھا اور امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) آپؐ کے آگے آگے چل رہے تھے اور فاطمہ (سلام اللہ علیہا) والد گرامی کے پیچھے چلی آرہی تھیں، سب حضراتؑ مقررہ جگہ پر پہنچ گئے۔
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اپنے دوش مبارک پر بالوں کی سیاہ رنگ والی عبا لیے ہوئے آگے بڑھے یہاں تک کہ دو درختوں کے قریب پہنچے۔ آپؐ نے فرمایا کہ دو درختوں کے درمیان کو ہموار کیا جائے۔ آپؐ نے اپنی عبا کو درختوں کے اوپر بچھایا اور اپنی اہل بیت (علیہم السلام) کو اس کے نیچے جگہ دی اور خود آگے کھڑے ہوئے اور اپنے بائیں کندھے کو عبا کے نیچے کیا اور جو کمان آپؐ کے دستِ مبارک میں تھی اس پر ٹیک لگائی اور دائیں ہاتھ کو مباہلہ کے لئے آسمان کی طرف اٹھایا۔
لوگ دور سے دیکھ رہے تھے کہ کیا ہوگا۔ سید اور عاقب نے جب یہ صورتحال دیکھی تو ان کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور ان کے پاؤں لرز گئے اور قریب تھا کہ بیہوش ہوجائیں۔ عیسائی، آپؐ کے پاس تیزی سے آپہنچے اور کہا: آپ ان افراد کے ساتھ آئے ہیں کہ ہم سے مباہلہ کریں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں، اللہ کی بارگاہ میں میرے بعد مخلوق میں سے یہ سب زیادہ مقرب ہیں۔
ان کا بدن کانپنے لگا اور انہوں نے آپؐ سے مصالحہ کرلیا اور جزیہ ادا کرنے پر راضی ہوگئے۔ آپؐ نے حضرت علی (علیہ السلام) کو مصالحہ کے لئے بھیجا۔ حضرت علی (علیہ السلام) نے دریافت کیا: ان سے کیسے صلح کروں؟ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: جو آپؑ کی مرضی ہو۔ حضرت علی (علیہ السلام) نے ان سے معاہدہ کیا کہ ہر سال دو ہزار قیمتی لباس اور ایک ہزار مثقال سونا ادا کریں اور اس کا آدھا حصہ محرم میں اور باقی آدھا رجب میں ادا کریں، اس کے علاوہ معاہدہ میں کچھ اور نکات بھی تھے۔ مرحوم سید ابن طاووس کے قول کے مطابق، گویا اس صلح نامہ کو مرتب کرنے اور کے شرائط کو مقرر کرنے میں حضرت علی (علیہ السلام) کو رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی طرف سے مکمل طور پر اختیار تھا، اور یعقوبی کی نقل کے مطابق، حضرت علی (علیہ السلام) ہی صلح نامہ کے کاتب تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: واقعہ مباہلہ، حسین سلطان محمدی]
Add new comment