خلاصہ: ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہمارے ائمہ(علیہم السلام) غیب کا علم رکھتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
داوود جعفری کہتے ہیں کہ میں امام محمد تقی(علیہ السلام) کی خدمت میں شرفیاب ہوا ،میرے ساتھ بغیر پتہ کے تین نامے تھے مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس میں سے کونسا نامہ کس شخص کا ہے، اسی لئے میں بہت پریشان تھا،
امام محمد تقی(علیہ السلام) نے ان میں سے ایک کو اٹھایا اور فرمایا: یہ نامہ زیاد ابن شبیب کا ہے، دوسرے کے اٹھایا اور فرمایا: یہ اس شخص کا نامہ ہے، اور تیسرے نامے کو اٹھا یا اور اس کے صاحب کا نام بھی بتایا، میں یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوگیا، امام(علیہ السلام ) مسکرائے اور مجھے ۳۰۰ دینار دئے اور فرمایا کہ یہ دینار ان کے ایک چچا زاد بھائی کو دوں اور فرمایا: کہ وہ تم سے کہیگا کہ مجھے ایسی جگہ کا پتہ بتاؤ جہاں سے میں ان دینار سے ساز و سامان خریدو، تم ان کی راہنمائی کرنا۔
داوود جعفری کہتے ہیں کہ میں امام(علیہ السلام) کے چچا زاد بھائی کے پاس وہ دینا ر لیکر گیا انھوں نے مجھ سے سازو سامان خریدنے کے لئے پتہ پوچھا، امام(علیہ السلام) نے جس طرح فرمایا تھا بلکل ویسا ہی ہوا[الکافی، ج:۲، ص:۴۱۸]۔
*اصول الکافی، محمد ابن یعوقوب کلینی، ترجمہ:سید جواد مصطفوی، كتاب فروشى علميه اسلاميه، ج:۲، ص:۴۱۸، پہلی چاپ، تھران ۱۳۶۹ش۔
Add new comment