مومن کی تین ضرورتیں امام محمد تقی (علیہ السلام) کی نظر میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی اخلاقیات کے سلسلے میں احادیث میں سے ایک حدیث یہ ہے جس میں آپ نے مومن کے لئے تین چیزوں کی ضرورت بیان فرمائی ہے، اس حدیث کے ان تین جملوں کی اس مقالہ میں کچھ تشریح کی گئی ہے۔

مومن کی تین ضرورتیں امام محمد تقی (علیہ السلام) کی نظر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اہل بیت عصمت و طہارت (علیہم السلام) نے اللہ کے دین کو لوگوں تک پہنچاتے ہوئے حقیقی عقائد کی تعلیم دی جن کا تعلق دل و دماغ سے ہے اور ان کا آخرت سے تعلق بنیادی حیثیت کا حامل ہے جیسے توحید، عدل، نبوت، امامت، معاد۔ اس کے علاوہ شرعی احکام کی بھی تعلیم دی جو انسان کے اعمال سے متعلق ہے اور انسان کو چاہیے کہ ان پر عمل پیرا ہو جیسے نماز، روزہ، حج، زکات اور خمس وغیرہ، لہذا قرآن کریم کے بہت سارے مقامات میں ایمان اور عمل صالح پر تاکید کی گئی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ صرف ایمان و عقیدہ کافی نہیں بلکہ ساتھ ساتھ نیک عمل کی بھی ضرورت ہے، جس سے غفلت اور عدم توجہی، آخرت میں عذاب اور گھاٹے کا باعث ہے۔ عقائد و احکام کے علاوہ جس چیز پر قرآن، احادیث، انبیاء الہی اور اہل بیت (علیہم السلام) نے انتہائی تاکید کی ہے، وہ اخلاقیات ہیں یہاں تک کہ خاتم المرسلین (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اپنی بعثت کا مقصد ہی مکارم اخلاق کی تکمیل بیان فرمایا۔ اسی لیے معصومین (علیہم السلام) قدم قدم، لمحہ لمحہ اور زندگی کے ہر چھوٹے بڑے موڑ پر اخلاقی اقدار کا خیال رکھتے ہوئے لوگوں کو اخلاق کی تعلیم دیتے رہے، اہل بیت (علیہم السلام) کے اقوال زرین اور اعمال و کردار، اخلاق حسنہ سے چھلک رہے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ حضرات صرف بولتے ہوئے اخلاقیات کا درس نہیں دیتے بلکہ خاموش رہ کر بھی تعلیم اخلاق دیتے ہیں۔ یہ ولایت کے چمکتے ہوئے ستارے صرف نیک اعمال بجالاکر نمونہ عمل نہیں ہیں بلکہ برائیوں اور اخلاق سے منافی کاموں سے بالکل دوری اختیار کرتے ہوئے بھی، انسانی کمالات کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان کی اخلاقی احادیث اتنی زیادہ ہیں جیسے اندھیری رات میں آسمان کی طرف سر اٹھایا جائے تو آسمان ستاروں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے، مگر دیکھنے والے کی نظر پر بھی کچھ موقوف ہے کہ دیکھنے والے کی قوت بینائی جس قدر زیادہ طاقتور ہوگی اتنا اسے زیادہ سے زیادہ ستارے دکھائی دیں گے اور جتنی قوت نظر کم ہوگی اتنا ہی چھوٹے ستارے نظروں سے غائب اور محو رہیں گے اور ہوسکتا ہے کہ قوت بینائی اتنی کمزور ہو کہ بڑے اور زیادہ نورانی ستارے بھی دکھائی نہ دیں۔ اخلاقیات میں بھی یہی بات ہے کہ جتنا انسان عقائد اور شرعی احکام کا اس طرح پابند رہے گا جیسے اللہ تعالی نے اپنے احکام، قرآن و اہل بیت (علیہم السلام) کے ذریعے بیان فرمائے ہیں اور اس سے ذرہ برابر بھی آگے نہیں بڑھے گا اور نہ ہی پیچھے رہے گا تو اتنا ہی اخلاقیات کو بہتر طریقے سے ادراک کرپائے گا اور انسانی اقدار کو اپنے وجود میں اپنانے کے لئے ظریف سے ظریف اخلاقی صفت کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرے گا تا کہ بری صفات کی منحوس جڑیں اپنے وجود سے کاٹ دے اور ان کی جگہ پر نیک صفات کو اپنا لے تا کہ قرب الہی تک پہنچنے کے لئے روح کی طہارت حاصل کرلے۔ معصومین (علیہم السلام) میں سے ایک، حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) ہیں جن کا مشہور لقب "جواد الائمہ" ہے۔ آپؑ نے کئی اخلاقی اقوال زرین اور نیک اعمال کے ذریعے لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف ہدایت فرمائی۔ ان اقوال زرین میں سے آپؑ کا ایک ارشاد یہ ہے:
"المؤمنُ يَحتاجُ إلى تَوفيقٍ مِن اللّه، و واعِظٍ مِن نَفسِهِ، و قَبولٍ مِمَّن يَنصَحُهُ"[1]، "مومن کو اللہ کی طرف سے توفیق، اندرونی نصیحت کرنے والا اور نصیحت کرنے والے کی نصیحت کو قبول کرنے کی ضرورت ہے"۔

اللہ کی طرف سے توفیق: توفیق تب حاصل ہوتی ہے جب مقصد تک پہنچنے کے تمام اسباب فراہم ہوں۔ توفیق عطا کرنے والا اللہ تعالی ہے اور انبیاء الہی کا بھی اس قول "وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ"[2] "میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے" کی بنیاد پر یہ عقیدہ تھا کہ لوگوں کی ہدایت کے اسباب کا فراہم ہونا اللہ کی جانب سے ہے، یہ توحیدی سوچ باعث بنتی ہے کہ آدمی اپنی توانائیوں کا سہارا لینے سے بڑھ کر اللہ کی توفیق کا سہارا لے، کیونکہ اس کی توانائیاں اور دیگر توفیقات بھی اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں، حتی یہی موجودہ توانائیاں بھی اللہ کی عطا کردہ طاقتیں ہیں جنہیں جب چاہے واپس لے سکتا ہے اور اگر چاہے تو ان میں اضافہ کرتا ہوا کسی مقصد تک انسان کو پہنچانے کے لئے توفیقات کو مکمل کرسکتا ہے۔

"اندرونی نصیحت کرنے والا" مومن کی دوسری ضرورت ہے۔ عقل اور ضمیر ایک باطنی اور اندرونی چراغ ہے جو انسان کو خوبیاں دکھاتا ہے اور اگر آدمی نے اس کی مخالفت کی اور عقل کو استعمال نہ کیا تو ضمیر اس کی مذمت کرتا ہے۔ جو آدمی اپنے اندرونی نصیحت کرنے والے کی نصیحت کو قبول نہیں کرتا وہ عام طور پر دوسرے لوگوں کی نصیحت کو بھی قبول نہیں کرتا، فطرت کی بیداری اور ضمیر کا جاگ جانا باعث بنتا ہے کہ آدمی گناہ کے ارتکاب سے رک جائے اور اپنی اصلاح کرتے ہوئے نیکیوں کی طرف بڑھتا چلا جائے۔

"نصیحت کو قبول کرنا": نصیحت کو قبول کرنا، مومن کی تیسری ضرورت ہے جو حضرت امام جواد (علیہ السلام) کی اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ تواضع اور انکساری اس بات میں ہے کہ اگر ہمیں خیرخواہی اور ہمدردی کرتے ہوئے کوئی شخص تنقید اور نصیحت کرے تو ہم کھلے دل سے اس کی بات کو قبول کریں اور اس کی نصیحت کا اثر لینا عقلمندی ہے۔
مادی، دنیاوی اور ظاہری امور میں عموماً لوگ چونکہ فائدہ اور نقصان کو سمجھ رہے ہوتے ہیں تو اگر انہیں کسی نقصان یا فائدہ کے بارے میں متوجہ کردیا جائے تو فوراً اسے قبول کرلیتے ہیں بلکہ جس نے ان کو اس بارے میں نصیحت کی اس کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ جس بات کی طرف انہیں متوجہ کیا گیا ہے اس کے فائدہ اور نقصان کا بخوبی ادراک کررہے ہوتے ہیں لیکن معنوی اور اخلاقی مسائل میں چونکہ ہوسکتا ہے اکثر فائدے اور نقصانات دیکھنے میں نہیں آتے، بلکہ ان کو ایمان اور عقل کے ذریعے سمجھنا پڑتا ہے تو اکثر لوگ دیکھی جانے والی چیزوں کو مانتے ہیں، لیکن جو شخس ایماندار ہے وہ اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے، جو چیزیں آنکھوں سے دیکھے جانے سے ماوراء ہیں، ان کو دل کی آنکھوں دیکھتا ہے، ان پر غور کرتا ہے اور اپنے فائدے اور نقصان کا عقل سے ادراک کرتا ہے، اسی لیے ایک روایت کے مطابق آدمی کا بہترین دوست وہی ہے جو اسے اس کے عیب بتائے۔ واضح ہے کہ عیب کا خاتمہ تب ہوگا جب آدمی اپنے عیب سے واقف ہوگا اور چونکہ اپنی سب غلطیوں سے خود آدمی واقف نہیں ہوسکتا، لہذا جب کوئی شخص اسے اس کے عیب سے آگاہ کردے گا تو وہ اس عیب کو اپنے وجود سے ختم کرنے کے لئے بھرپور کوشش کرے گا، جس نے اسے اس کا عیب بتایا ہے، اس کا شکریہ بھی ادا کرے گا کیونکہ عیب کو ختم کرنے میں اس کا اپنا فائدہ ہے، لہذا مومن نصیحت کرنے والے کی نصیحت کو قبول کرنے کا محتاج ہے۔

نتیجہ: ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالی سے توفیق طلب کریں کہ وہ ہمارے اندرونی چراغ کو روشن رکھے تا کہ ہم اپنے ضمیر کی نصیحت کو بھی قبول کرسکیں اور لوگوں کی نصیحتوں کو بھی سن کر اپنے کردار میں تبدیلی اور بہتری لاسکیں، تب اخلاقی کمالات سے اپنے وجود کو منور کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] تحف العقول، ص 457۔
[2] سورہ ھود، آیت 88۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 82