خلاصہ: اس مضمون میں امام محمد تقی(علیہ السلام) کے قرآنی آیات کے ذریعہ کئے گئے استدلال کو پیش کیا گیا ہے جو آپ (ع) نے تمام علماء اور معتصم کی موجودگی میں انجام دئے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیعوں کا اس بات پر اعتقاد ہے کہ امام، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جانشین ہوتے ہیں، جو وظائف اور ذمہ داری رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ہے وہ تمام وظائف اور ذمہ داری امام کی بھی ہے، اسی لئے امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت کے تمام احکام کا علم رکھتے ہوں تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو اختلافات اور انحرافات سے بچائیں۔ امام کے علم کے لئے کسی سن یا عمر کی قید نہیں ہوتی، اگر وہ گہورارہ میں بھی ہوں تب بھی ان کی زبان سے علم اور حکمت کے چشمہ جاری ہوا کرتے ہیں۔
امام، علم اور معرفت کی اس بلندی پر ہوتے ہیں کہ ساری کائنات، دوست ہوں یا دشمن، امام کے علم کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان ہی اعترافات میں سے ایک ’’معتصم‘‘ عباسی خلیفہ کا اعتراف ہے، اس کے باوجود کہ اس کے دربار میں بزرگ علماء موجود تھے لیکن اس نے امام محمد تقی(علیہ السلام) کے استدلال کو قبول کیا اور تمام علماء پر امام جواد(علیہ السلام) کو ترجیح دی۔
امام محمد تقی(علیہ السلام) کا استدلال معتصم عباسی کے دربار میں[1]۔
مناقب ابن شھر آشوب اور ارشاد مفید میں ہے کہ معتصم عباسی کے زمانے میں ایک شخص نے چوری کی تھی، اس شخص کو پکڑ کر معتصم کے دربار میں پیش کیا گیا، اس وقت امام محمد تقی(علیہ السلام) اور اہل سنت کے بزرگ علماء اس کے دربار میں موجود تھے، چور نے چوری کا اقرار کر لیا، معتصم نے علماء سے پوچھا اس پر حدّ کس طرح جاری کی جائے؟ ان میں سے بعض نے کہا:
ہتھیلی کے اوپر کے حصہ سے اسے کاٹنا چاہئے، معتصم نے پوچھا کس دلیل کی بناء پر، انھوں نے کہا تیمم کی اس آیت کی بناء پر: «فَتَیمَّمُوا صَعِیدًا طَیبًا[سورۂ مائدہ، آیت:۶] پاک مٹی سے تیمم کرلو»، کیونکہ اس آیت میں ہاتھ سے مراد ہتھیلی ہے، بعض علماء نے کہا: ہاتھ کو کہنی سے کاٹنا چاہئے کیونکہ وضو کی آیت: «فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ[سورۂ مائدہ، آیت:۶] اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤ»، ہاتھ سے مراد کہنی ہے، اور بعض نے کہا: ہاتھ کو بازو سے کاٹنا چاہئے کیونکہ عرف میں ہاتھ کا اطلاق بازو سے انگلیوں تک ہوتا ہے۔
اس طرح بحث ہوتی رہی، امام(علیہ السلام) خاموش بیٹھے ہوئے تھے، معتصم نے امام(علیہ السلام) سے پوچھا کہ آپ بتائیے، امام(علیہ السلام) نے فرمایا: ان لوگوں نے کہہ دیا ہے، معتصم کے اصرار پر امام(علیہ السلام) نے فرمایا: یہ سب لوگ غلط کہہ رہے ہیں، چور کی صرف انگلیاں کاٹنا چاہئے۔
معتصم نے کہا کیوں، امام(علیہ السلام) نے فرمایا: کیونکہ خداوند عالم نے فرمایا: «أَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً [سورۂ جن، آیت: ۱۸]اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا»، تمام سجدہ کے اعضاء اللہ کے لئے ہے کسی کو بھی ان پر حق نہیں ہے، اگر چور کے ہاتھ کاٹ دیے جائے تو وہ نماز کیسے پڑھیگا۔
امام(علیہ اسلام) کے استدلال کو معتصم نے قبول کیا اور چور کی انگیاں کاٹنے کا حکم دیا۔
امام(علیہ السلام) کی ذات وہ ہے جو علم کا سرچشمہ ہے جس سے علم کے چشمہ جارے ہوتے ہیں اور یہ کسی مخصوص شخص کے لئے نہیں ہے بلکہ جو چاہے اس بحر علم سے اپنے آپ کو فیض پہونچا سکتا، خدا سے دعا ہے کہ ہمیں امام کی حقیقی معرفت عطا فرمائے تاکہ ہمارے دل، امام کی معرفت سے منور ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1]۔ مترجمان، ترجمه مجمع البيان فى تفسير القرآن، انتشارات فراهانى - تهران، 1360 ش،ج۲۵،ص۲۸۶۔
Add new comment