حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی بچپن میں امامت پر دلائل

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کو اللہ تعالی کی جانب سے بچپن میں مقام امامت عطا ہوا، لوگ شک و شبہ میں پڑ گئے جبکہ قرآن کریم نے حضرت عیسی اور حضرت یحیی (علیہماالسلام) کے بچپن میں مقام نبوت پر فائز ہونے کے بارہ میں بتا دیا تھا، ان دو نبیوں کے بچپن میں نبوت کو مسلمانوں نے تسلیم کرلیا مگر حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کے بارے میں شک و انکار میں پڑگئے۔

حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی بچپن میں امامت پر دلائل

بسم اللہ الرحمن الرحیم

     شیعہ مذہب کے عقیدہ کے مطابق امامت، اللہ تعالی کی طرف سے اسلامی معاشرے کی رہبری کرنے کے لئے منصوب ہونا اور دینی اور دنیاوی مسائل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلافت و جانشینی ہے۔ یہ عقیدہ، مذہب شیعہ کے اصول میں سے ہے اور یہ مسئلہ شیعہ و سنی کے درمیان اعتقادی اختلافات میں سے ہے۔ شیعوں کی نظر میں امامت کی اہمیت باعث بنی ہے کہ انہیں امامیہ کا لقب دیا جائے۔
شیعہ تعلیمات کے مطابق، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دور رسالت کی ابتدا سے اپنی وفات کے بعد اپنے خلیفہ اور مسلمانوں کے امام کے تعارف کے لئے بہت کوشش کرتے رہے۔ اس سلسلے میں آنحضرت کے اقدامات، پہلی اعلانیہ دعوت میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کا اپنے بعد خلیفہ اور جانشین کے طور پر تعارف کروانے سے شروع ہوئی اور آپ کی حیات کے آخری دنوں تک، حجۃ الوداع سے واپسی کے راستہ میں، ۱۸ ذی الحجہ کو غدیر خم میں جاری رہی۔
اثناعشری شیعوں کے بارہ امام ہیں، ان میں سے پہلے حضرت امام علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) اور آخری، حضرت امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) ہیں۔ حضرت امام علی (علیہ السلام) کے بعد آپ کے فرزند حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) اور پھر حضرت امام حسن (علیہ السلام) کے بھائی حضرت امام حسین (علیہ السلام) منصب امامت پر فائز ہوئے اور ان تین اماموں کے بعد، حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے فرزندوں میں سے نو افراد، ترتیب سے اس منصب پر مقرر کیے گئے، ان سب حضرات کے تقرر کے سلسلے میں مستند، معتبر اور یقینی روایات پائی جاتی ہیں۔
امام کے موجود ہونے کی وجہ دین اسلام کو منتقل اور محفوظ کرنا اور دینی معارف کو صحیح طور پر واضح کرنا ہے، اسی لیے ضروری ہے کہ امام کے پاس، اپنے فرائض کو بہتر طریقہ سے ادا کرنے کے لئے، گناہ و معصیت سے دوری اختیار کرنے کا ملکہ ہو اور نیز لازمی طور پر علم لدنی اور اللہ تعالی کا عطا کردہ علم اور اللہ کی طرف ولایت سے ہونی چاہیے۔
امام ہونے کے شرائط میں سے یہ شرط بالکل نہیں ہے کہ لوگ بھی اسے پسند کریں، یا لوگوں کے خیالات اور تصورات کے مطابق ہو بلکہ اس عظیم منصب پر فائز ہونے والا امام، کیونکہ اللہ کی جانب سے معین ہوتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی ذہنیت، امیدیں، آرزوئیں اور توقعات سے ہٹ کر ایسا فرد ہو جس کی امامت کے بارے میں لوگ تصور تک نہیں کرسکتے اور ہوسکتا ہے کہ اسے دیکھ کر تعجب کریں کہ یہ شخص کیسے امام ہوسکتا ہے! لیکن ہر انسان کا یقینی فریضہ ہے کہ اللہ تعالی کے سامنے عبادت اور عبودیت اختیار کرتا ہوا ہر فرمان الہی کے سامنے سر تسلیم خم کردے، چاہے اس شخص کی نبوت یا امامت لوگوں کو پسند نہ بھی آئے۔ حضرت امام جواد (علیہ السلام) جو شیعوں کے نویں امام برحق ہیں، کیونکہ آپ کو ۸ سال کی عمر میں مقام امامت عطا ہوا تو بعض لوگوں نے شبہ کیا کہ کیسے ہوسکتا ہے کمسن بچے کو ایسا مقام مل جائے، امام کو تو بالغ ہونا چاہیے، جیسا کہ علامہ اہل سنت ابن حجر نے لکھا ہے: "جو پاک شریعت میں ثابت ہوا ہے وہ یہ ہے کہ چھوٹے بچے کی ولایت صحیح نہیں ہے، تو شیعہ کیسے ایسے شخص کی امامت کا گمان کرتے ہیں جس کی امامت تک پہنچتے تک عمر، پانچ سال سے زائد نہیں تھی؟!"[1]
احمد کاتب نے بھی لکھا ہے: "معقول نہیں ہے کہ خدا چھوٹے بچے کو مسلمانوں کی رہبری کے لئے منصوب کرے"۔[2]
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی انسان سے طرح طرح کے امتحان لیتا ہے، ہر آدمی زندگی کے مختلف مراحل میں متعدد چیزوں سے آزمایا جاتا ہے تاکہ اس کی فرمانبرداری کی حد دیکھی جائے۔ اللہ تعالی کبھی اعمال کے ذریعے آزماتا ہے اور کبھی عقائد کے ذریعے۔ اعمال جیسے نماز، روزہ، حج، زکات و خمس وغیرہ، عقائد جیسے توحید (اللہ کی وحدانیت)، عدل الہی، انبیا (علیہم السلام) کی نبوت، بارہ ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی امامت اور قیامت کے عقیدہ کے ذریعے۔
ان میں سے ایک عقیدہ امامت ہے۔ امامت مختلف نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی بارہویں امام (علیہ السلام) تک پہنچی ہے۔ تاریخ کی ایک تعجب خیز بات یہ ہے کہ اللہ نے جس کو بھی نبوت، رسالت یا امامت عطا فرمائی، لوگوں نے مختلف بہانوں سے، متعدد طریقوں سے اور جاہلانہ حرکتوں سے اس کے اس منجانب اللہ مقام کا انکار کردیا۔ ہر دور کے منکرین نے کوئی ایسا نقص گھڑ لیا جس سے لوگوں کے ذہن میں شبہ ڈالتے ہوئے لوگوں کو صراط مستقیم اور ہدایت الہی سے بہکا دیا اور جاہلانہ اعتراضات کرتے ہوئے اللہ تعالی سے دشمنی پر اتر آئے، جبکہ قرآن کریم میں ارشاد الہی ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا"[3]، " ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو۔ یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے"۔
اس آیت میں اللہ تعالی حکم دے رہا ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کرنی چاہیے، لہذا اولی الامر کو موجود ہونا چاہیے تا کہ ان کی اطاعت کی جائے۔[4]
علامہ اہل سنت تفتازانی اس دلیل کو مدنظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں: "اولی الامر کی اطاعت کے واجب ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ اطاعت واقع ہو"۔[5]
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: " مَنْ ماتَ وَ لَمْ یعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ ماتَ مَیتَةً جاهِلِیةً[6] "، "جو شخص مرجائے جبکہ اسے اپنے زمانہ کے امام کی معرفت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے"۔
بعض متکلم علماء نے اس حدیث کو امامت کے ضروری ہونے کی دلیل سمجھا ہے کیونکہ اس حدیث کے مطابق، ہر زمانہ میں امام کی معرفت، ایک شرعی ذمہ داری ہے، لہذا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرگز کوئی زمانہ، امام کے وجود سے خالی نہیں رہ سکتا۔[7]
یہاں تک بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ اولاً: امام کا تقرر اللہ تعالی ہی کا کام ہے اور اس میں کوئی شخص مداخلت نہیں کرسکتا، ثانیاً: قرآن و احادیث کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ امام کا موجود ہونا اور زندہ ہونا ضروری ہے۔ اب بحث یہ ہے کہ تاریخ کی ورق گردانی کرنے سے اللہ تعالی کے بعض ایسے مقرر کردہ نبی اور اماموں سے سامنا ہوتا ہے جنہیں بچپن میں پروردگار سے خاص منصب ملا اور عام ذہنیت کے مطابق بعض لوگوں نے ایسے کمسن حجت الہی کے مقام پر شک یا انکار اور دشمنی اختیار کی۔ درحقیقت ایسے لوگوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جس خدا نے عدم سے انسان کو خلق کرتے ہوئے وجود کا لباس پہنا کر دنیا میں بھیج دیا ہے کیا وہ بچپن میں ایسی طاقتیں عطا نہیں کرسکتا جو بڑے آدمی کے پاس ہوتی ہیں، کیا جب آدمی کی عمر بڑھتی ہے تو اسے مختلف جسمانی اور روحانی توانائیاں خودبخود مل جاتی ہیں یا مالک کائنات اسے رفتہ رفتہ پروان چڑھا رہا ہے اور اس کے وجود میں مختلف طاقتیں پیدا کررہا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کے منکرین کو توحید کی معرفت حاصل نہیں ہوئی اور رب العالمین کی قدرت کا ادراک نہیں ہوا، جب خالق ارض و سماء، ایسی ذات ہے جو "علی کل شیء قدیر" ہے جو بلاقید و شرط ہر کام کو کرنے پر قادر ہے اور نہ ہی وہ اسباب و وسائل کا محتاج ہے بلکہ اسباب میں پائے جانے والے اثرات کو بھی اللہ نے خود رکھا ہے، ورنہ ہر چیز مردہ، میت، بے جان اور بے اثر ہے، کبھی اسباب میں اثر رکھ کر اس اثر کو نکھارتے ہوئے کسی اور چیز پر اثرانداز کرتا ہے اور کبھی اسی اثر کو روک کر انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت پر دلیل اور ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی امامت پر ثبوت بنا دیتا ہے، تو اس کے لئے کیا فرق ہے کہ سنرسیدہ آدمی کو مقام نبوت یا امامت عطا کرے یا بچہ کو؟! یہاں سے قابل غور بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو مختلف طریقوں میں آزماتا رہا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس آزمائش کی مثال اس امتحان سے پہلے  پیش ہوچکی ہو، لیکن لوگوں کی غفلت اور عقل کے عدم استعمال کی وجہ سے ان کے دماغوں پر پردے پڑجاتے ہیں اور ان کا عقیدہ توحید اس امتحان کے ترازو میں تول لیا جاتا ہے جس میں کتنے لوگ ناکام ہوکر حق سے الگ ہوجاتے ہیں اور گمراہ کن فرقوں، بلادلیل دعویداروں اور دنیاپرستوں کی دھوکہ بازیوں کی جال میں پھنس کر اس حد تک حق سے بھٹک جاتے ہیں کہ کسی دن تو خلیفہ الہی پر اعتراض کررہے تھے مگر ان کا کفر یہاں تک پہنچ گیا کہ توحید پروردگار پر بھی اعتراضات شروع کردیے اور ہوسکتا ہے تب اپنی غلطی پر متوجہ ہوں جب سر سے پانی گزر گیا ہو اور واپس پلٹنا ناممکن ہوچکا ہو اور ہدایت کو قبول کرنا محال ہوگیا ہو۔ حضرت عیسی ابن مریم (علیہماالسلام) کو اللہ تعالی نے باپ کے بغیر خلق کیا اور بچپن میں نبوت عطا فرمائی، جنہوں نے توحید کو اچھے طریقہ سے سمجھا نہیں تھا وہ دو گروہوں میں بٹ گئے، بعض نے انکار کردیا اور بعض نے غلو کی نجاست کو چھوتے ہوئے اتنا مقام بڑھا دیا کہ حضرت عیسی (علیہ السلام) کو اللہ کا (نعوذباللہ) بیٹا سمجھ لیا اور دونوں گروہ ہلاکت کے گڑھے میں گرگئے جبکہ آنحضرت کی مثال پیش کی جاچکی تھی جس پر لمحہ بھر کا غور کرنا بھی نجات کا باعث بن سکتا تھا، وہ مثال حضرت آدم و حوا (علیہماالسلام) کی خلقت کی تھی کہ اگر حضرت عیسی (علیہ السلام) باپ کے بغیر پیدا ہوئے اور لوگوں نے ان کو اللہ کا بیٹا کہہ دیا تو حضرت آدم کے بارے میں ایسی بات کیوں نہیں کہی جبکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے ماں باپ دونوں نہیں ہیں، حضرت عیسی )علیہ السلام) کی والدہ تو ہیں، لہذا ان لوگوں کے پاس قیامت کے دن اپنی گمراہی کے لئے کوئی دلیل اور حجت نہیں ہوگی جسے پیش کرکے عذاب الہی سے نجات پاسکیں۔ نیز اللہ تعالی نے حضرت عیسی (علیہ السلام) کو بچپن میں نبوت عطا فرمائی اگرچہ بعض لوگوں نے مخالفت کی لیکن مسلمانوں نے تو اس بات کو تسلیم کیا اور قرآن کی اس خبر اور حقیقت کا انکار نہیں کیا، مگر مسلمانوں کا عقیدہ توحید و نبوت کتنا کمزور تھا کہ قرآنی حقیقت اور تاریخی واقعیت کو روز روشن کی طرح ہر زبان سے سنتے ہوئے کہ حضرت عیسی (علیہ السلام) کو بچپن میں نبوت ملی، جب ایسی حقیقت، امامت میں ظاہر ہوئی اور حضرت امام جواد (علیہ السلام) کو بچپن میں اللہ تعالی نے منصب امامت پر فائز کیا تو مسلمان کئی گروہوں میں بٹ گئے، اپنی مرضی کے امام منتخب کرلیے، بلادلیل دعویداروں کی ضلالت آمیز باتوں کو تسلیم کرلیا اور قرآنی عظیم حقیقت کو طاق نسیان پر رکھ کر حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی امامت کو بچپن کے بہانہ سے انکار کردیا، جبکہ ماضی کی تاریخ، قرآن کی زبانی سن کر جان چکے تھے کہ ہوسکتا ہے کہ خداوند متعال کسی انسان کو بچپن میں ہی اپنی جانب سے خاص مقام عطا فرما دے تو لوگوں کو اس بات کا تابع ہونا چاہیے، لہذا امام محمد تقی (علیہ السلام) کی بچپن میں امامت سے پہلے پروردگار عالم لوگوں کو مثال دکھا کر حجت تمام کرچکا تھا اور ایک مثال بھی نہیں کئی مثالیں، ایک تو حضرت عیسی (علیہ السلام) کی مثال اور دوسری حضرت یحیی ابن زکریا کی مثال ہے جنہیں اللہ تعالی نے بچپن میں نبوت عطا فرمائی۔ حضرت عیسی ابن مریم (علیہماالسلام) کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ جناب مریم (علیہا السلام) نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کردیا: " فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا ۔ قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا"[8]، " انہوں نے اس بچہ کی طرف اشارہ کردیا تو قوم نے کہا کہ ہم اس سے کیسے بات کریں جو گہوارے میں بچہ ہے، بچہ نے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے"۔
نیز حضرت یحیی (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ تعالی اپنے لاریب کلام میں ارشاد فرما رہا ہے: "يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا"[9]، "یحیٰی! کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو اور ہم نے انہیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی"۔
ان دو قرآنی دلیلوں سے ثابت ہوا کہ حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کو بچپن میں مقام امامت عطا ہونا ناممکن نہیں ہے، جس اللہ نے حضرت عیسی اور یحیی (علیہما السلام) کو بچپن میں امامت عطا کی اسی اللہ نے حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کو بھی بچپن میں مقام امامت پر فائز کردیا۔ حالانکہ حضرت عیسی (علیہ السلام) کو نبوت شیرخواری کی عمر میں ملی، لیکن حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کو امامت ۸ سال کی عمر میں ملی۔ امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) ۵ سال کی عمر میں مقام امامت پر فائز ہوئے اور امام حسن عسکری (علیہ السلام) کو ۹ سال کی عمر میں امامت عطا ہوئی۔
حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے مختلف موقعوں پر امام محمد تقی (علیہ السلام) کی امامت کی خبر دی اور اپنے خاص اصحاب کو اطلاع دی۔
خود حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) سے بھی جب شیعوں نے آپ کی کم سنی کا مسئلہ بیان کیا تو آپ نے جواب میں حضرت سلیمان ابن داود (علیہما السلام) کا واقعہ دلیل کے طور پر پیش کیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جب اپنے بچپنے میں تھے اور گوسفندوں کو چراگاہ لے جاتے تو حضرت داود (علیہ السلام) نے آپ کو اپنا جانشین قرار دیا، جبکہ بنی اسرائیل کے عباد اور علماء، حضرت داود (علیہ السلام) کے اس کام کا انکار کرتے تھے۔[10]
نتیجہ : بعض نے یہ سوال اٹھایا کہ بچہ مقام امامت پر فائز نہیں ہوسکتا جبکہ قرآن کریم نے حضرت عیسی اور حضرت یحیی (علیہما السلام) کی مثالیں پیش کردیں جن سے حجت تمام ہوگئی اور ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالی چونکہ پہلے ایسا کرچکا ہے تو ایسا کام محال نہیں ہے بلکہ ممکن ہے اور اللہ ایسے کام پر قادر ہے، لہذا تعجب کی بات نہیں کہ اللہ کسی بچے کو مقام نبوت یا امامت پر فائز کردے، تعجب کی بات تو یہ ہے کہ لوگ کمسن امام کی امامت کا انکار کرتے ہوئے اللہ کی قدرت کو محدود سمجھ لیتے ہیں جبکہ قرآن مجید میں کئی بار اللہ تعالی کے بارے میں "علی کل شیء قدیر" کی آیت کی تلاوت کرچکے ہیں، کیا انہیں قرآن کے اتنے بار دہرانے سے بھی قرآن کی اس آیت پر یقین نہیں آتا؟!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] صواعق المحرقة، ص 166۔
[2] تطور الفكر السياسي، ص 102۔
[3] سورہ نساء، آیہ 59۔
[4] تلخیص المحصل، ص407۔
[5] شرح المقاصد، ج5، ص239۔
[6] بحارالأنوار، ج23، ص76ـ 95، المستدرک علی الصحیحین، ج1، ص150، 204، احادیث 259، 403؛ مسند احمد بن حنبل، ج12، ص277؛ ج13، ص188، احادیث 15636، 16819۔
[7] شرح المقاصد، ج5، ص239؛ شرح الفقه الأکبر، ص179۔
[8] سورہ مریم، آیت 29، 30۔
[9] سورہ مریم، آیت 12۔
[10] اثبات الوصيه، ص 213۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
18 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 104