خلاصہ: اس مضمون میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) اور امام رضا(علیہ السلام) سے امام جواد(علیہ السلام) کی امامت کی دلیل کے طور پر حدیث بیان کی گئی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام محمد تقی(علیہ السلام) پہلے امام ہیں جو کمسنی میں امامت کے منصب پر فائز ہوئے، اسی لئے لوگوں کے ذہنوں میں سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ایک کمسن بچہ کو دیدی جائے اور وہ پیغمبر خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا جانشین ہو؟
اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ امر ممکن ہے اور اس پر متعدد شواھد اور دلائل پائے جاتے ہیں، اختصار کو مد نظر رکھے ہوئے جن میں سے صرف ایک ہی دلیل کو بیان کیا جا رہا ہے۔
ہم شیعوں کا اس بات پر یقین ہے کہ امام، اللہ کی طرف سے منصوب ہوتا ہے کیونکہ خداوند عالم بندوں کے بارے میں بہتر جانتا ہے کہ کس چیز میں ان کا فائدہ ہے اور کن چیزوں میں ان کا نقصان ہے۔ جس طرح بندوں کی ہدایت کے لئے خدا نے انبیاء کو بھیجا اسی طرح بندوں کو سعادت اور کمال تک پہوچانے کے لئے خدا نے ائمہ(علیہم السلام) کو بھیجا کیونکہ انسان کی عقل، تنہا اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتی کہ کس بات میں اس کا فائدہ ہے یا کس میں نقصان، اسی لئے انسان کو کمال اور سعادت ابدی تک پہونچانے کے لئے ایک معصوم امام کا ہونا ضروری ہے۔
قرآن نے احکام کو کلی طور پر بیان کیا ہے، اس کی تشریح اور تفسیر کی ذمہ داری رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے سپرد کردی ہے جیسے: « وَ أَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ[سورۂ نحل، آیت:۴۴] اور آپ کی طرف بھی ذکر کو (قرآن)نازل کیا ہے تاکہ ان کے لئے ان احکام کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں»، « وَ أَقیمُوا الصَّلاةَ »، « وَآتَوُا الزَّكاةَ»اور ... اور نماز کی رکعتوں کی تعداد، یا زکات کا نصاب قرآن میں بیان نہیں گیا ہے، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان کو بیان کیا ہے۔
ہمارے بارہ اماموں کی امامت کو بھی اسی طرح قرآن میں کلی طور پر بیان کیا گیا ہے، قرآن میں بہت زیادہ آیات ہیں جو ائمہ(علیہم السلام) کی امامت پر دلالت کرتی ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں: « أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ[سورۂ نساء، آیت:۵۹] ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں»، « فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ[سورۂ نحل، آیت:۴۳] اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو »، «یا اَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّهَ وَ کُونُوا مَعَ الصّادِقینَ[سورۂ توبہ، آیت:۱۱۹] ایمان والو اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ»۔
لیکن احادیث میں امام محمد تقی(علیہ السلام) کی امامت کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے جن میں سے دو حدیثوں کو بیان کیا جا رہا ہے:
امام رضا(علیہ السلام) سے ایک صحابی نقل کرتے ہیں کہ امام رضا(علیہ السلام) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے، کسی نے امام(علیہ السلام) سے سوال کیا، اگر کوئی مسئلہ پیش آئے تو آپ کے بعد کس کی طرف مراجعہ کریں؟ امام(علیہ السلام) نے امام محمد تقی(علیہ السلام) کی طرف اشارہ کیا، اس شخص نے امام(علیہ اسلام) سے عرض کیا میری جان آپ پر قربان ہوجائے وہ ابھی کمسن ہیں، امام رضا(علیہ السلام) نے فرمایا: خداوند عالم نے عیسی ابن مریم کو اس سے بھی کم عمر میں رسول، پیغمبر اور صاحب شریعت قرار دیا تھا[۱]۔ا
اسی بارے میں جابر ابن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں کہ ایک دن میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب سورۂ نساء کی ۵۹ویں آیت نازل ہوئی تھی، میں نے رسول خدا(صلی للہ علیہ وآلہ و سلم) سے عرضی کیا: ہم نے اللہ اور اس کے رسول کو پہجانا اور ان کی اطاعت کرتے ہیں، مگر اس آیت میں ’’اولی الامر‘‘ کون ہیں جس کی اطاعت ہم پر واجب ہے؟ رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) نے فرمایا: «اي جابر! اولی الامر میرے جانشین ہیں اور میرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں جس میں سب سے پہلے علی ابن ابی طالب(علیہما السلام) ہیں، ان کے بعد حسن(علیہ السلام)، پھر حسین(علیہ السلام)، پھر علی ابن حسین(علیہما السلام)، پھر محمد ابن علی(علیہما السلام) ہے جس کا نام توریت میں باقر ہے اور تم اس کو دیکھوگے اور جب تم ان کو دیکھنا تو میرا سلام کہنا، ان کے بعدجعفر ابن محمد(علیہما السلام)، پھر موسی ابن جعفر(علیہما السلام)، پھر علی ابن موسی(علیہما السلام)، پھر محمد ابن علی(علیہما السلام)، پھر علی ابن محمد(علیہما السلام)، ان کے بعدحسن ابن علی(علیہما السلام)، پھر وہ جسکا نام میرا نام اور جس کی کنیت میری کنیت، زمین پر اللہ کی حجت اور حسن ابن علی(علیہما السلام) کے فرزند ہیں[۲]۔
اگر چہ عمر اور سن کو بہت ساری جگھوں پر اہم قرار دیا جاتاہے مگر خدا کے نزدیک اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، انسان کا نیک اور صالح عمل ہے جس کی وجہ سے وہ خدا کے نزدیک درجہ حاصل کرتا ہے اور یہ خدا کی طرف سے ایک ہدیہ ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ محمد باقر ابن محمد تقی مجلسی، بحار الانوار، دار احیاء التراث العربی،۱۴۰۳ق،ج۵۰، ص۲۱۔
[۲]۔بحار الانوار، ج۵۰، ص۲۵۳۔
Add new comment