موت سے محبت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی نظر میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) سے جب دریافت کیا گیا کہ موت سے یہ مسلمان کیوں ڈرتے ہیں؟ تو آپ نے ان کی موت کے بارے میں جہل اور لاعلمی کو وجہ کے طور پر بیان فرمایا، موت سے محبت کرنے کی شرط اور نیز موت کا فائدہ بیان کیا، پھر مثال سے بھی سائل کو سمجھا دیا کہ موت کتنی فائدہ مند چیز ہے۔

موت سے محبت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی نظر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسان کے ارادوں اور کسی چیز سے محبت یا دوری اختیار کرنے کا زیادہ تر معیار ظاہری ہوتا ہے، جبکہ یہ معیار ہمیشہ صحیح نہیں ہوتا کیونکہ یہ کائنات صرف اس دنیا تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے ماورا بھی اور جہان ہیں جن کے معیار اور اصول دنیا سے الگ ہیں۔ انسان کا ان جہانوں سے رابطہ رکھنا اور معلومات کا مل جانا آسان اور معمولی کام نہیں بلکہ دوسرے جہانوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے اہل بیت (علیہ السلام) کے فرامین پر غور کرنا ضروری ہے، ورنہ انسان ایسے فیصلے کرے گا جن کا نتیجہ توقع کے خلاف ہوگا، جن میں سے ایک موت ہے، انسان موت سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے پسند نہیں کرتا جبکہ حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی نظر میں موت ایسی شئی ہے جس سے محبت کی جاسکتی ہے، مگر ساتھ کچھ اور باتوں کا جاننا لازمی ہے۔
حضرت امام جواد (علیہ السلام) سے دریافت کیا گیا کہ یہ مسلمان موت سے کیوں نفرت کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "لِأنَّهُم جَهِلُوهُ، ‌فَکَرِهُوهُ، ‌وَ لَو عَرَفُوهُ وَ کانُوا مِن اَولِیاءِ اللهِ عزّوجلّ لاَحَبُّوهُ، ‌وَ لَعَلِمُوا اَنَّ الآخِرَةَ خَیرٌ لَهُم مِنَ الدُّنیا"، "کیونکہ وہ موت کو نہیں جانتے (موت کے مفہوم سے جاہل ہیں) تو اس سے نفرت کرتے ہیں، حالانکہ اگر اسے پہچان لیتے اور اللہ عزوجل کے اولیاء میں سے ہوتے تو یقیناً اس سے محبت کرتے اور ضرور جان لیتے کہ یقیناً آخرت ان کے لئے دنیا سے بہتر ہے".
پھر آپ نے فرمایا: اے اباعبداللہ! بچے اور دیوانے اس دوا کو کھانے سے کیوں گریز کرتے ہیں جو ان کے بدن کو صحت مند کردیتی ہے اور ان کے درد کو ختم کردیتی ہے؟ اس نے عرض کیا: کیونکہ دوا کے فائدہ کو نہیں جانتے۔
آپ نے فرمایا: "و الّذي بَعَثَ محمّدا بالحَقِّ نبيّا إنّ مَنِ استَعدَّ للمَوتِ حَقَّ الاستِعدادِ فهُو أنفَعُ لَهُ مِن هذا الدَّواءِ لهذا المُتعالِجِ ، أما إنّهُم لَو عَرَفوا ما يُؤدّي إلَيهِ المَوتُ من النّعيمِ لاستَدعَوهُ و أحَبُّوهُ أشَدَّ ما يَستَدعي العاقِلُ الحازِمُ الدَّواءَ لدَفعِ الآفاتِ و اجتِلابِ السَّلاماتِ"[1]، "قسم اس کی جس نے محمد(ص) کو برحق نبی بنایا، جو شخص اپنے آپ کو جیسا حق ہے ویسا موت کے لئے تیار کرلے تو اس کے لئے موت اس دوا سے زیادہ فائدہ مند ہے جتنی اس علاج کرنے والے کے لئے فائدہ مند ہے، جان لو کہ اگر لوگ جانتے کہ موت کیسی نعمتوں تک لے جاتی ہے تو یقیناً اس عقلمند دوراندیش سے زیادہ موت کو طلب کرتے اور اس سے محبت کرتے، جو بیماریوں کو ختم کرنے اور صحت یابی کے لئے دوائی کی تلاش میں ہے"۔
اگر انسان تھوڑا سا غور کرے تو اس کے لئے روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ جب یقیناً ہر انسان کو مرنا ہے اور اللہ کا وعدہ بھی حق ہے کہ جنت اور جہنم اور ثواب و عذاب موجود ہے تو وہ اپنے آپ کو دن رات اسی کوشش میں مصروف رکھے گا کہ اپنی آخرت سنوار لے اور اپنے آپ کو برے اعمال سے بچا کر نیک اعمال کرتے ہوئے موت کے لئے تیار کرے۔ جس آدمی نے اپنے اعمال کو درست کرلیا، یعنی کریم پروردگار کی رحمت سے لبریز بارگاہ میں توبہ کرتا ہوا گناہوں سے بالکل دستبردار ہوگیا، ماضی کے گناہوں پر ندامت اور پشیمانی کو محسوس کیا، آئندہ کے لئے گناہوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کی، جو حقوق اللہ اس کے ہیں ان کو ادا کردیا جیسے قضا نمازیں، روزے، حج، زکات و خمس وغیرہ اور حقوق العباد بھی ادا کردیئے، جن کا مقروض تھا ان کو ان کا حق دیدیا اور لمحہ لمحہ کو قیمتی سمجھتے ہوئے تمام فرائض الہی کی ادائیگی میں کوشاں ہوگیا، اپنی زندگی کا رخ باطل سے حق کی طرف اور گمراہی سے ہدایت کی طرف موڑ لیا، دوسروں کے عیب تلاش کرنے کے بجائے، اپنے ہی گریبان جھانکنے لگا، نصیحت کے سامنے ضد، ہٹ دھرمی اور بہانہ تراشی چھوڑ کر حقیقی خیرخواہی اور ہمدرد لوگوں کی نصیحت کو قبول کرنے لگا اور اپنی اصلاح کرنا شروع کردی، گالی گلوچ، فضول باتوں، بے فائدہ گفتگووں، لاحاصل سوچوں کی جگہ، ذکر پروردگار، مخلوقات الہی میں غور و خوض کرنے لگا، حرام ساز و آواز سننے کی جگہ قرآن و احادیث کے عظیم معارف سننے اور علمائے دین کی تقاریر کو سماعت کرنے لگا، نامحرم اور حرام چیزوں سے بالکل نظریں ہٹا لینے کا پختہ ارادہ کرلیا اور ان چیزوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا جن کو دیکھنا اللہ تعالی نے مستحب اور باعث ثواب قرار دیا ہے، اور دنیاوی پست خواہشات اور خیالی آرزوں کو ٹھوکر مار کر اللہ تعالی سے آخرت کے بلند رتبوں کی تمنا و آرزو کرنے لگا۔ جب اتنی تبدیلیاں آگئیں تو دنیا کا کھوکھلا پن ظاہر ہوجائے گا، کیونکہ پہلے اپنے آپ کو اس نے اتنی پست چیزوں میں محدود کررکھا تھا جن کی لذت جلد ہی ختم ہوجاتی ہے لیکن اب اصلاح کرنے سے اس کے لئے یہ حقیقت واضح ہونے لگ گئی کہ جب میری خواہشات لامحدود ہیں تو ان لامحدود خواہشات کے لئے لامحدود جہان کی ضرورت ہے جہاں لذات کی انتہا نہ ہونے پائے، خواہش ہیدا ہوتے ہی مطلوب چیز سامنے آجائے، جس جہان کی بادشاہت انسان کے اختیار میں ہو، جب چاہے، جیسا چاہے، جتنا چاہے اور جو چاہے اس کے لئے فوراً فراہم ہوجائے جو آخرت اور جنت ہے۔ ان صحیح افکار کی بنیاد پر انسان دنیا کو زندان سمجھے گا اور موت سے محبت کرے گا کیونکہ اپنے عظیم مقصد تک پہنچنے کا واحد راستہ موت کو ہی جانتا ہے اور اس بلند ہدف کی دستیابی کے لئے اپنے آپ کو آمادہ بھی کرلیا ہے۔
حضرت سیدالشہداء امام حسین (علیہ السلام) نے عاشورا کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا: "صَبرا بَني الكِرامِ! فما المَوتُ إلاّ قَنطَرَةٌ تَعبُرُ بِكُم عَنِ البُؤسِ و الضَّرّاءِ إلَى الجِنانِ الواسِعَةِ و النَّعيمِ الدّائمَةِ ، فأيُّكُم يَكرَهُ أن يَنتَقِلَ مِن سِجنٍ إلى قَصرٍ"[2]، "اے بزرگوں کی اولاد! صبر کرو، کیونکہ موت صرف وہی پل ہے جو تمہیں رنج و الم سے وسیع جنتوں اور جاوید نعمت تک پہنچادیتی ہے، تم میں سے کون پسند نہیں کرتا کہ زندان سے محل میں منتقل ہوجائے"۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنے شیعوں کی موت کی آسانی کے بارے میں فرماتے ہیں: "إنّ أشَدَّ شيعَتِنا لَنا حُبّا يكونُ خُروجُ نَفسهِ كشُربِ أحَدِكُم في يَومِ الصَّيفِ الماءَ البارِدَ الّذي يَنتَقِعُ بهِ القلوبُ، و إنّ سائرَهُم لَيَموتُ كما يُغبَطُ أحَدُكُم على فِراشهِ كأقَرَّ ما كانَت عَينُهُ بمَوتهِ"[3]، "ہمارے محبترین شیعہ کی جان نکلنا ایسا ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص موسم گرما کے دن میں ٹھنڈا روح افزا پانی پیے، اور ان کے دیگر افراد اپنے بستر پر ایسی حالت میں مرتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک، اس طرح مرنے پر رشک کرتا ہے، ایسا مرنا جو اس کی آنکھ کی ٹھنڈک کا باعث بنے"۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "أفضَلُ تُحفَةِ المؤمنِ المَوتُ"،[4]، "مومن کا بہترین تحفہ موت ہے"۔
نتیجہ: بعض چیزوں سے نفرت کرنے کی وجہ اس کی حقیقت سے ناواقفیت ہوتی ہے، موت سے مسلمان اس لیے نفرت کرتے ہیں کہ اس کی حقیقت کو نہیں جانتے جبکہ اگر اسلامی تعلیمات کے مطابق موت کی حقیقت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ مومن کے لئے موت دنیاوی رنج و الم سے آزادی کا باعث ہے، جس کے بعد مومن ابدی حیات اور جاوید زندگی تک پہنچ کر اللہ تعالی کی عظیم ترین نعتموں سے لطف اندوز ہوگا۔ البتہ اس ابدی زندگی کے لئے سامان دنیا سے ہی تیار کرکے بھیجنا ہے، اگر موت کی حقیقت کا ادراک کرلیا اور آخرت کا سامان دنیا سے تیار کرکے بھیجتا رہا تو ایسا آدمی موت سے کیوں نفرت کرے جبکہ دنیا سے بہتر زندگی تو اس نے کسی اور جہان میں تیار کردی ہے، تو یہ آدمی موت سے نہ صرف نفرت نہیں کرے گا، بلکہ محبت بھی کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:

[1] ميزان الحكمہ، ج11، ص96۔
[2] معاني الأخبار: 3/288۔
[3] بحار الأنوار: 30/162/6۔
[4] غرر الحكم : 3365۔

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 21