خلاصہ: بعض مالدار لوگ مال پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ مال ان کو ہمیشہ زندہ رکھے گا، یہ سوچ سراسر غلط ہے۔
سورہ علق کی آیات ۶، ۷ میں ارشاد الٰہی ہے: "كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ . أَن رَّآهُ اسْتَغْنَىٰ"، "ہرگز نہیں! انسان (اس وقت) سرکشی کرنے لگتا ہے۔ جب وہ سمجھتا ہے کہ وہ (غنی) بےنیاز ہے"۔
جب انسان نعمتوں سے لبریز ہوجائے تو اپنے آپ کو بے نیاز سمجھ لیتا ہے اور پھر سرکشی کرتا ہے، جبکہ اس کی یہ سوچ ظاہری اور حقیقی طور پر غلط ہے، ظاہری طور پر اس لیے غلط ہے کہ وہ جو اپنے آپ کو بے نیاز سمجھ رہا ہے، کیا وہ کم از کم اپنے آپ کو اسی مال اور چیزوں کا ضرورتمند نہیں سمجھتا جنہیں اپنے پاس اکٹھا کررکھا ہے، اگر ضرورتمند نہیں سمجھتا تو سب کچھ غریبوں کو بانٹ دے، کیونکہ وہ تو اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہے اور ان چیزوں کا محتاج نہیں ہے۔
اور حقیقی طور پر اس لیے غلط ہے کہ ہر چیز اور ہر انسان ہمیشہ ہر جگہ ہر حال میں درحقیقت اللہ کا محتاج ہے، یہ مال جو اس نے جمع کررکھا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے فی الحال اس کے پاس ٹھہرا ہوا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اس سے وہ مال واپس لینا چاہے تو وہ اس مال کو اپنے پاس روک نہیں سکتا، اور اگر اللہ مال سے اس کو الگ کرنا چاہے تو مال اس کو بچا نہیں سکتا۔ سورہ ہمزہ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ . الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ . يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ .كَلَّا لَيُنبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ"، "جو مال جمع کرتا ہے اور اسے گن گن کر رکھتا ہے۔ کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا"۔
جس مال کو محافظ کی ضرورت ہو، کیا وہ مال اپنے مالک کی حفاظت کرسکتا ہے؟ بلکہ دوسرے لوگوں سے زیادہ یہی مال اور یہی مالدار خطرے کی زد میں ہوتے ہیں۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment