خلاصہ: امام رضا(علیہ السلام) نے مأمون کے ذھن میں انبیاء کی عصمت کے بارے میں جو شک اور شبھات تھے انھیں دور فرمایا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علی بن محمد جہم جو کہ ناصبی اور دشمن اہل بیت تھا وہ کہتا ہے کہ ایک دفعہ میں مأمون کی تقریب و نشست میں موجود تھا، وہاں حضرت امام علی رضا(علیہ السلام ) بھی موجود تھے مأمون کے ذھن میں انبیاء کی عدم عصمت پر کچھ سوالات تھے وہ ان کے متعلق امام(علیہ السلام) سے سوال کررہا تھا اور امام(علیہ السلام) ہر سوال کا جواب دے رہے تھے، مامون جواب پانے کے بعد کہتا ہے: ’’یابن رسول اللہ آُپ نے میرے دل کو شفا عنایت کی ہے اور جو چیز مجھ پر واضح نہیں تھی اسے واضح اور روشن کردیا ہے، خداوند عالم آپ کو اپنے انبیاء کی جانب سے جزاء خیر عنایت کرے‘‘۔
علی بن محمد جہم کہتا ہے کہ جب گفتگو ختم ہوئی مامون نماز کے لئے اٹھا اور محمد ابن جعفر امام علی رضا(علیہ السلام) کے چچا جو کہ وہاں موجود تھے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور راستہ چلنے لگا، میں بھی ان دونوں کے پیچھے تھا، مامون نے محمد ابن جعفر سے کہا آپ نے اپنے بھائی کے فرزند کو کیسا پایا؟ انہوں نے کہا وہ عالم و دانا ہیں اور ہم نے نہیں دیکھا کہ انہوں نے کسی کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا ہو اور کسی سے علم حاصل کیا ہو۔ مامون نے کہا: گویا آپ کے بھائی کا فرزند، عترت پیغمبر(صلی اللہ علیہ و ّآلہ و سلم) میں سے ہے کہ جس کے بارے میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: «أَلَا إِنَّ أَبْرَارَ عِتْرَتِي وَ أَطَايِبَ أَرُومَتِي أَحْلَمُ النَّاسِ صِغَاراً وَ أَعْلَمُ النَّاس كِبَاراً لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ لَا يُخْرِجُونَكُمْ مِنْ بَابِ هُدًى وَ لَا يُدْخِلُونَكُمْ فِي بَابِ ضَلَال؛ آگاہ ہو جاؤ میری عترت کے نیک افراد اور میرے وجود کے درخت کی شاخ کمسنی میں عقلمند ترین اور ضعیفی میں لوگوں میں داناترین ہیں، ان کو کچھ تعلیم دینے کی کوشش مت کرنا کیونکہ یہ تم سے زیادہ صاحب علم اور صاحب عقل ہیں، یہ تمہیں ہدایت کی حدود سے باہر نہیں لے جائیں گے اور گمراہی اور جہالت کی دلدل میں نہیں پھنسائیں گے»[بحار الأنوار، ج:۴۹، ص:۱۸۰]۔
*بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، محمد باقر بن محمد تقى مجلسى، دار إحياء التراث العربي،ج:۴۹، ص:۱۸۰، ۱۴۰۳ق۔
Add new comment