خلاصہ: اس مضون میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر عبادت کو صحیح طریقہ سے اداء کیا جائے تو اس کے کیا اثرات حاصل ہوتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اگر عبادت اپنے تمام شرائط پر انجام پائے تو خود بخود تمام بتوں کو توڑ دیتی ہے اور تکوینی طور پر ایسی عبادت تمام موجودات کو اپنا ہمنوا، مطیع اور فرمانبردار بنالیتی ہے جیسا کہ حضرت داؤد(علیہ السلام) کی رہبری میں پہاڑ، عبادت و تسبیح انجام دیتے تھے جس کے بارے میں قرآن مجید میں آیا ہے کہ: «وَلَقَدْ آتَینَا دَاوُدَ مِنَّا فَضْلاً یا جِبَالُ أَوِّبِی مَعَهُ وَالطَّیرَ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِیدَ[سورۂ سبا، آیت:۱۰] اور ہم نے داؤد کو یہ فضل عطا کیا کہ پہاڑو تم ان کے ساتھ تسبیح پروردگار کیا کرو اور پرندوں کو مسخّر کردیا اور لوہے کو نرم کردیا»۔
اور اسی امر کی جانب عقل سلیم بھی ہدایت کرتی ہے کہ انسان اگر مادّی گرہوں کو کھول کر چشم بصیرت سے فسلفہ عبادت پر غور و فکر کرے تو یہ حقیقت بطور آشکار اسے نظر آئے گی کہ عالم ہستی کا ذرّہ ذرّہ محو تسبیح و تہلیل ہے اور خدائے یکتاکے حضور سجدہ ریز ہے۔ یہ تو صرف انسان غافل ہے جو کہ خالق کون و مکان کی نعمتوں میں سراپا غرق رہتے ہوئے بھی ثنویت و شرک و بت پرستی میں مبتلا ہے اور موجودات عالم کی تسبیح و تہلیل سے بے خبر ہے۔
اگر عبادت کو اسکی حقییقت کےساتھ دیکھنا ہے تو ہم معصومین(علیہم السلام) کی زندگی کو دیکھیں کہ جن کی زندگی کا ہر لمحہ خدا کی عبادت اور یاد سے بھرا ہوا ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ جب امام رضا(علیہ اسلام) مأمون کے اصرار پر نماز عید کے لئے نکلے۔
ولی عہدی کے انعقاد کے بعد ۲۰۱ہجری کو جب ماہ مبارک رمضان کی عید فطر ہوئی تو مأمون نے امام(علیہ السلام) سے کہا کہ نماز عید پڑھائیں لیکن امام(علیہ السلام) نے ولی عہدی کے لئے مقرر کردہ شرائط کا حوالہ دے کر مأمون سے فرمایا "مجھے اس چیز سے معذور رکھو"، مأمون کے اصرار پر امام(علیہ السلام) کو قبول کرنا پڑا لیکن امام(علیہ السلام) نے فرمایا: میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرح نماز عید پڑھاؤنگا۔ مأمون نے امام(علیہ السلام) کی شرط مان لی۔
لوگوں کو توقع تھی کہ امام رضا(علیہ السلام) بھی خلفاء کی طرح خاص قسم کی رسوم و آداب کے ساتھ نماز کے لئے نکلیں گے لیکن سب نے حیرت کے ساتھ دیکھا کہ امام(علیہ السلام) ننگے پاؤں تکبیر کہتے ہوئے گھر سے باہر نکلے اور سرکاری اہلکار جو اس طرح کے پروگرام کے لئے رائج لباس پہن کر آئے تھے، یہ حالت دیکھ کر سواریوں سے اترے اور سب نے اپنے جوتے اتار لئے اور روتے ہوئے اللہ اکبر کی صدائے بلند کرتے ہوئے امام(علیہ السلام) کے پیچھے پيجھے [عیدگاہ کی طرف] روانہ ہوئے۔ امام(علیہ السلام) ہر قدم اٹھاتے ہوئے تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے تھے۔
ایک ایسا ماحول بن گیا تھا کہ جس کو دیکھ کر مأمون کے چھرے کا رنگ اڑگیا تھا، مروی ہے کہ فضل بن سہل نے مأمون سے کہا: اگر امام رضا(علیہ السلام) اسی حالت میں عید گاہ پہنچ گئے تو تمہاری حکومت کا تختہ پلٹ جائے گا، مأمون نے جب اس ماحول کا مشاھدہ کیا تو ایک شخص کو روانہ کرکے امام(علیہ السلام) سے کہلوایا کہ واپس آجائیں، امام(علیہ السلام) نے اپنے جوتے منگوائے اور اپنی سواری پر بیٹھ کر واپس ہو گئے[۱]۔
جب انسان حقیی عبادت کو انجام دیگا اور امام(علیہ السلام) کی حقیقی معنی میں اطاعت کریگا تو یقینا اس کی عبادت کے ذریعہ ایسے اثرات ظاہر ہونگے۔
حضرت امام علی رضا(علیہ السلام) کا نماز عید فطر کے لئے جانے کے عمل سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:
۱۔ امام (علیہ السلام) نے در واقع اقتدار دین کی ایک جھلک دیکھائی۔
۲۔ حاکموں کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے آشکار کردیا کہ ان کا رسالت و سنت نبوی سے کوئی تعلق نہیں۔
۳۔ یہ بھی بتادیا کہ سنت نبوی کتنی کار آمد ہے بس عمل کی ضرورت ہے۔
۴۔ عید کا صحیح اور اسلامی تصور پیش کیا کہ عید یوم خضوع و بندگی ہے نہ کہ دنیاوی رنگ میں رنگنے کا دن۔
۵۔ امام( علیہ السلام) نے مامون کو سرنگون کیا۔
۶۔ امام( علیہ السلام )نے انقلاب قائم آل محمد صلوات اللہ علیہ کی ایک ہلکی جھلک دیکھائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱]۔ http://ur.wikishia.net/view/ امام_علی_رضا_علیہ_السلام
Add new comment