خلاصہ: بعض لوگ جب طرح طرح کی نعمتوں سے لبریز ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے غافل ہوجاتے ہیں، جبکہ انہیں پہلے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے، کیونکہ نعمت لے کر نعمت دینے والے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
سورہ نحل کی آیت ۵۴ میں ارشاد الٰہی ہے: "ثُمَّ إِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنكُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنكُم بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ"، "پھر جب وہ تکلیف کو دور کر دیتا ہے تو ایک دم تم میں سے ایک گروہ اپنے پروردگار کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے"۔
انسان دو موقعوں پر غفلت کا شکار ہوجاتا ہے:
۱۔ جب اسے نعمت مل جائے۔
۲۔ جب اس سے تکلیف دور ہوجائے۔
ان دونوں موقعوں کا مشترکہ پہلو یہ ہے کہ جب انسان نعمتیں حاصل کرلیتا ہے تو اپنے آپ کو بے نیاز سمجھ لیتا ہے، تکلیف کو اور تکلیف کے دور ہوجانے سے جو اسے سکون نصیب ہوتا ہے اسے بھلا دیتا ہے اور اللہ کی اس نعمت کو فراموش کردیتا ہے۔ تکلیف اور سکون کی نعمت کو فراموش کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ جب آدمی تکلیف میں مبتلا تھا تو اپنی بے چینی کی وجہ سے چیختا چلاتا تھا اور مجبوری کی وجہ سے اللہ کو پکارتا تھا، ورنہ اب صحت، نعمت اور اختیار کی حالت میں اللہ کو کیوں یاد نہیں کرتا؟ اس لیے کہ صحت اور نعمت کی حالت میں اپنے آپ کو بے نیاز سمجھ لیتا ہے۔
سورہ علق کی آیات ۶، ۷ میں ارشاد الٰہی ہے: "كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ .أَن رَّآهُ اسْتَغْنَىٰ"، "ہرگز نہیں! انسان (اس وقت) سرکشی کرنے لگتا ہے۔ جب وہ سمجھتا ہے کہ وہ (غنی) بےنیاز ہے"۔
انسان اس حقیقت پر توجہ نہیں کرتا کہ جب صحت مند اور نعمتوں میں لبریز ہے تو اللہ نے ہی صحت اور سب نعمتیں اسے دی ہیں اور ان سب کو اس کے لئے جاری رکھا ہوا ہے۔ ایک مثال سے اس بات کو واضح کیا جاسکتا ہے: اگر آدمی کو ایک پیچیدہ بات کی سمجھ آجائے تو اپنے آپ کو عقل سے بے نیاز سمجھ لے اور کہے کہ اب تو میں خود سمجھ رہا ہوں! جبکہ عقل ہی ہے جو اب سمجھا رہا ہے اور اگر عقل آدمی سے رُخ موڑ لے تو یہی آسان ترین بات بھی سمجھ میں نہیں آئے گی۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment