خلاصہ: با ایمان لوگ اور بے ایمان لوگ، تکلیفوں کو الگ الگ نظر سے دیکھتے ہیں، یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ مشکلات سے سامنا کرنے میں ایمان کا کتنا کردار ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت ۱۷۷ میں نیک لوگوں کے کئی صفات بیان کیے جارہے ہیں جن میں سے چند صفات یہ ہیں: "... وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ"، "... جب معاہدہ کریں تو اسے پورا کرنے والے ہوں اور تنگدستی اور مصیبت کے وقت اور میدان جنگ میں صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں"۔
جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے سورہ مومنون کی آیت ۷۶ ، ۷۷ میں ان کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے: "وَلَوْ رَحِمْنَاهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِم مِّن ضُرٍّ لَّلَجُّوا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ . وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ . حَتَّىٰ إِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِم بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيدٍ إِذَا هُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ"، "اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جس تکلیف میں مبتلا ہیں وہ بھی دور کر دیں تو بھی یہ لوگ اپنی سرکشی میں اندھا دھند بڑھتے جائیں گے۔ اور ہم نے انہیں عذاب کے ذریعہ پکڑا بھی مگر یہ نہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی گڑگڑاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم نے شدید عذاب کا دروازہ کھول دیا تو اسی میں مایوس ہوکر بیٹھ رہے "۔
جب معاشرے میں نظر دوڑائی جائے تو دکھائی دیتا ہے کہ جو شخص مومن ہو اور اس کی زندگی دین اسلام کے اصول و فروع کی بنیاد پر قائم ہو تو وہ مشکلات کو گہری نظر سے دیکھتا ہے، اللہ تعالیٰ کو صاحب حکمت جانتا ہے لہذا مشکلات پر صبر کرتا ہے اور ان سے نصیحت لیتا ہے اور اس نصیحت کے ذریعے اپنی آخرت کے زاد راہ کو فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
لیکن جس کی زندگی دین پر قائم نہ ہو وہ اللہ پر بدگمان ہوجاتا ہے، مشکلات کے صرف ظاہر کو دیکھتا ہے، باطن کو نہیں دیکھتا تو ان سے کوئی نصیحت ہی نہیں لیتا کہ آخرت کا زاد راہ فراہم کرنا چاہے، مشکلات کو حل کرنے کی کوشش صرف اس لیے کرتا ہے کہ مادی اور دنیاوی سکون حاصل کرلے۔
*سورہ بقرہ کی آیت کا ترجمہ از: مولانا شیخ محسن نجفی صاحب۔
*سورہ مومنون کی آیات کا ترجمہ از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment