خلاصہ: مشکلات کو اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو اس میں انسان کے لئے مختلف درس اور نصیحتیں پائی جاتی ہیں۔
جو شخص مشکلات اور تکلیفوں کو گہری نظر سے نہ دیکھے تو اس کے لئے جونہی مشکل پیش آئی، تکلیف کا شکار ہوا یا اپنے لیے سکون فراہم کرنا چاہا تو اسباب و وسائل کو استعمال کرے گا اور اپنی ضرورت پوری کرلے گا اور بس۔ یعنی وہ ہمیشہ دو چیزوں کے درمیان کوشش میں رہتا ہے: اپنی ضرورت اور وسائل۔ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے وسائل کی پناہ لیتا ہے اور وسائل کو فراہم کرتا ہے تا کہ مناسب موقع پر اپنی ضرورت کو پورا کرسکے! اس میں انسان کی ترقی نہیں ہے، بلکہ بے مقصد اور غفلت بھری زندگی ہے۔
اگر گہری سوچ سے ضرورت اور اسباب کا تجزیہ کیا جائے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مشکلات، تکلیفیں اور فطری خواہشات کو یقیناً وسائل و اسباب کے ذریعے پورا کرنا چاہیے، لیکن کیا یہ ضروریات اس لیے پیش آتی ہیں کہ انسان صرف ان کا حل نکال کر ان کو پورا کرسکے؟ یہ تو ایسے ہے جیسے آدمی اپنی گاڑی کو کبھی کبھار اس لیے استعمال کرلے کہ اس پر پیسہ لگایا ہے اور گاڑی اس لیے خریدی کیونکہ اس کے پاس اضافی پیسہ تھا! اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے گاڑی کی ضرورت نہیں تھی، تو اس نے بے مقصد کام کیا ہے۔
لہذا مشکلات اس لیے نہیں ہیں کہ ان کو دور کرکے صرف سکون حاصل کرلیا جائے، بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے اور مشکلات اور تکلیفوں کو برداشت کرنے اور ان پر صبر کرنے کے ذریعے انسان کا اللہ پر ایمان بڑھنا چاہیے۔
سورہ بقرہ کی آیت ۲۱۴ میں ارشاد الٰہی ہے: "أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ"، "کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ تم یوں ہی جنت میں داخل ہو جاؤگے حالانکہ ابھی تک تمہارے سامنے تم سے پہلے گزرے ہوئے (اہل ایمان) کی سی صورتیں (اور شکلیں) آئی ہی نہیں۔ جنہیں فقر و فاقہ اور سختیوں نے گھیر لیا تھا۔ اور انہیں (تکلیف و مصائب کے) اس قدر جھٹکے دیئے گئے کہ خود رسول اور ان پر ایمان لانے والے کہہ اٹھے کہ آخر اللہ کی مدد کب آئے گی؟ آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ کی مدد یقینا نزدیک ہی ہے"۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment