خلاصہ: مشکلات اور خوشیاں دونوں امتحان ہیں، خوشیوں میں انسان اپنے آپ کو آزاد نہ سمجھ لے اور مشکلات میں اللہ کی رحمت سے مایوس اور ناامید نہ ہو تا کہ ان دونوں امتحانوں میں کامیابی حاصل کرے۔
انسان پر جو مشکل آتی ہے وہ اس کے امتحان کے لئے ہوتی ہے اور جب اسے کوئی خوشی ملتی ہے تو وہ بھی اس کا امتحان ہوتا ہے۔ مشکل سے سامنا کرتے ہوئے بعض لوگ اللہ تعالیٰ سے ناامید ہوجاتے ہیں، یہ لوگ امتحان میں ناکام ہیں، کیونکہ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ اس علیم و قدیر اللہ پر توکل اور بھروسہ کریں، صبر سے کام لیں، اللہ سے مدد طلب کریں، اس کی بارگاہ میں گڑگڑائیں، اہل بیت (علیہم السلام) سے متوَسّل ہوں اور ان معصوم حضراتؑ کے وسیلہ سے مشکل کے حل کے لئے مالکِ کائنات کی بارگاہ میں دعا کریں۔
جب انسان کو کوئی جائز خوشی نصیب ہوتی ہے تو اس خوشی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت سمجھے، جب نعمت سمجھے گا تو اس نعمت کا شکر ادا کرے گا۔ اگر اس خوشی کی نعمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ سمجھے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ یہ سمجھے گا کہ اب کھلا موقع مل گیا ہے، اس خوشی کو مزید بڑھانے اور جاری رکھنے کے لئے جو چاہے کام کرے اور جیسا مرضی وقت گزارے، جبکہ بالکل ایسا نہیں ہے۔
یہی خوشی اس کا امتحان ہے کہ کیا وہ اس خوشی میں اللہ کو یاد رکھتا ہے اور اس خوشی کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کے امر و نہی کے مطابق عمل کرتا ہے یا اللہ کو فراموش کرکے اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے لگتا ہے۔
اگر انسان اس امتحان کی حقیقت کو سمجھ لے تو پھر اس کے لئے مشکلات اور خوشیوں میں فرق نہیں رہے گا، کیونکہ دونوں امتحان ہیں، صرف امتحان کی شکلیں مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کو اس لیے خلق کیا ہے کہ آزمائے کہ کون سب سے بہتر عمل بجالاتا ہے۔ سورہ ملک کی دوسری آیت میں ارشاد الٰہی ہے: "الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ"۔
Add new comment