خلاصہ: نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی تشریح کرتے ہوئے دو فقروں پر گفتگو کی جارہی ہے جو اللہ کی ازلیت اور موجود ہونے کے بارے میں ہے۔
نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "كائِنٌ لاَ عَنْ حَدَث، مَوْجُودٌ لاَ عَنْ عَدَم"، "وہ ہے، ہوا نہیں۔ موجود ہے، (مگر) عدم سے وجود میں نہیں آیا"۔
آپؑ کے ان فقروں سے اللہ تعالیٰ کے لئے زمان کی نفی ہوتی ہے اور ازلیّت ثابت ہوتی ہے۔ اللہ کی ذات ایسی ذات ہے جو کسی چیز سے وجود میں نہیں آئی اور نہ ہی عدم سے وجود میں آئی ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ پہلے نہیں تھا، پھر وجود میں آیا ہو، بلکہ وہ ہمیشہ سے موجود ہے۔
لہذا اللہ کا ساری مخلوقات سے اِس لحاظ سے بھی فرق ہے، کیونکہ ساری مخلوقات حادث ہیں اور سب عدم سے وجود میں آئی ہیں، یعنی پہلے نہیں تھیں، پھر وجود میں آئی ہیں، واحد ذات جو حدوث اور عدم سے پاک و منزہ ہے، وہ اللہ کی ذات ہے۔
"کائن" اور "موجود" کے الفاظ کو صرف اسی صورت میں استعمال کیا جاسکتا ہے کہ ان کے مفہوم کو مخلوقات کے صفات اور عدم سے پاک سمجھا جائے۔
ان دو فقروں کے تاکیدی ہونے کا زیادہ امکان ہے، یعنی دونوں فقرے، زمانی اور ذاتی حدوث کی نفی کررہے ہیں، بایں معنی کہ ہر طرح کے حدوث اور عدم کی زمانے کے لحاظ سے اور ذات کے لحاظ سے اللہ سے نفی ہورہی ہے۔ [ماخوذ از: پیام امام، ج۱، ص۶۷]
*اصل مطالب ماخوذ از: پیام امام، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، ناشر: دار الكتب الاسلاميه، تہران، ۱۳۸۶ھ ۔ ش، پہلی چاپ.
Add new comment