خلاصہ: اصول کافی کی تشریح کرتے ہوئے، حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی اس حدیث کی مختصر وضاحت کی جارہی ہے جس میں تین معیاروں کو دیگر تین معیاروں پر منحصر کیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے جناب ہشام ابن حکم سے فرمایا: "يَا هِشَامُ، مَا بَعَثَ اللَّهُ أَنْبِيَاءَهُ وَ رُسُلَهُ إِلى عِبَادِهِ إِلَّا لِيَعْقِلُوا عَنِ اللَّه، فَأَحْسَنُهُمُ اسْتِجَابَةً أَحْسَنُهُمْ مَعْرِفَةً، وَ أَعْلَمُهُمْ بِأَمْرِ اللَّهِ أَحْسَنُهُمْ عَقْلًا، وَ أَكْمَلُهُمْ عَقْلًا أَرْفَعُهُمْ دَرَجَةً فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ"، "اے ہشام، اللہ نے اپنے انبیاء اور اپنے رسولوں کو اپنے بندوں کی طرف مبعوث نہیں کیا مگر اس لیے کہ اللہ کی طرف سے غور کریں، تو قبول کرنے کے لحاظ سے ان میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو (اللہ کی) معرفت کے لحاظ سے سب سے بہتر ہو، اور اللہ کے امر کا سب سے زیادہ عالم وہ ہے جو عقل کے لحاظ سے سب سے بہتر ہو، اور عقل کے لحاظ سے زیادہ مکمل وہ ہے جو دنیا اور آخرت میں درجہ کے لحاظ سے سب سے زیادہ بلند ہو"۔ [الکافی، ج۱، ص۱۶]
اس دوسرے فقرے سے آخر تک تین معیاروں کے لئے تین معیار بتائے گئے ہیں:
۱۔ فَأَحْسَنُهُمُ اسْتِجَابَةً أَحْسَنُهُمْ مَعْرِفَةً: (انبیاءؑ کی دعوت کو) سب سے بہتر قبول کرنے والا وہ شخص ہے جو سب سے بہتر (اللہ تعالیٰ کی) معرفت اور پہچان کا حامل ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاءؑ کی دعوت کو قبول کرنے کے مختلف درجات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان کے درجات پر منحصر ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں سب لوگوں کی معرفت برابر نہیں ہے، بلکہ معرفت الٰہی کے درجات ہیں، لہذا ہر انسان کو چاہیے کہ اپنی معرفت کو بڑھائے تا کہ انبیاءؑ کی دعوت کو بہتر طریقہ سے قبول کرے۔
۲۔ وَ أَعْلَمُهُمْ بِأَمْرِ اللَّهِ أَحْسَنُهُمْ عَقْلًا: عقلمندی اور عالم ہونے کے درمیان تعلق پایا جاتا ہے۔ اللہ کے امر کے بارے میں سب سے زیادہ عالم وہ ہے جو عقل کے لحاظ سے احسن ہو۔ لہذا اللہ کے امر کو صرف جاننے سے انسان سب سے زیادہ عالم نہیں بنتا، بلکہ بہتر عقل اور بہتر غور و خوض کرنا، سب سے زیادہ عالم ہونے کا معیار ہے۔
۳۔ أَكْمَلُهُمْ عَقْلًا أَرْفَعُهُمْ دَرَجَةً فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ: کس کی عقل زیادہ مکمل ہے؟ جس کا درجہ دنیا اور آخرت میں زیادہ بلند ہو۔
*الکافی، الشيخ الكليني الناشر دارالكتب الاسلامية، تہران، پانچویں ایڈیشن، ۱۳۶۳ ھ.ش
Add new comment