خلاصہ: دعا کرنا قرآنی اور حدیثی دلائل کے علاوہ عقلی دلائل سے بھی ثابت ہوتا ہے، عقلی دلائل کے پیش نظر واضح ہوتا ہے کہ قرآن و اہل بیت (علیہم السلام) نے دعا کرنے کی اس قدر تاکید کیوں کی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل بیت (علیہم السلام) سے منقول دلائل کے علاوہ اگر صرف عقلی دلائل کی طرف توجہ کی جائے تو یقیناً یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ہمیشہ اللہ کو پکارنا چاہیے اور اس کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔
انسان کی صرف عبودیت اور بندگی کی حیثیت ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے جو ہمارے علم پر منحصر نہیں ہے، چاہے ہم اس حقیقت کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، یہ ربط اور تعلق قہری اور فطری ہے، یہ انسان کی وجودی حقیقت ہے اور انسا ن کے علاوہ ساری کائنات بھی اسی طرح ہے۔ لہذا جب حقیقت یہ ہے تو پھر انسان کے پاس اور کیا راستہ ہے سوائے اس کے کہ اپنی حاجات اللہ تعالی سے طلب کرے؟!
لمحہ فکریہ ہے کہ اگر انسان کی عقل اس حقیقت کو واقعی طور پر سمجھ لیتی تو پروردگار متعال کے علاوہ کسی اور مخلوق سے رابطہ قائم نہ کرتی۔ البتہ اسباب کا اثرانداز ہونا اور ایک دوسرے سے متاثر ہونا بھی حقیقت ہے، مگر یہ سب اثر لینا اور دینا، ربّ العالمین کے اذن اور ارادے سے ہے اور سب کچھ اس کی مشیت کے عین مطابق فرمانبردار ہے۔
انسان کی طبیعت جو مسلسل اپنے فائدوں کے حصول کی کوشش میں لگی رہتی ہے، جونہی اپنی طرف اور اپنے وجود سے باہر والی چیزوں کی طرف توجہ کرے تو بے تحاشہ اور لگاتار ضروریات کی طرف متوجہ ہوگی جن تک پہنچنے کے لئے انتہائی محنت چاہیے، تو انسان اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہر وسیلہ کو تھامنے لگتا ہے اور اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے کسی اقدام سے دریغ نہیں کرتا۔ اس کے باوجود انسان جتنی زیادہ کوشش کرتا ہے اتنا زیادہ اپنے آپ کو آرزوؤں اور تمناؤں کے ازدحام میں پاتا ہے کہ جن کے سلسلے کی کڑیاں ماضی سے مستقبل تک قطار میں لگی ہوئی ہیں تو خواہشات کے ایسے ہجوم میں انسان کی دھوڑدھوپ دو میں سے ایک راستے تک پہنچے گی: یا ناامیدی یا جنون خیز اور پاگل کردینے والی محنت جو انسانیت کی حدود کو توڑ کر اپنی خواہش تک پہنچنے کے درپے ہے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں دین اسلام کی تاکیدوں کا راز سمجھ میں آتا ہے کہ کیسے اس دین نے انسانوں کی معنوی اور روحانی ضرورت کو بھر دیا ہے اور "دعا" جیسا مضبوط وسیلہ ان کو دیا ہے کہ ضرورتوں کی پرتلاطم لہروں میں ناامیدی کا شکار نہ ہوجائیں، بلکہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرکے اپنی ضرورت اور حاجت طلب کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ
مذکورہ بالا مطالب اقتباس از: شہود و شناخت، حسن ممدوحی کرمانشاہی۔
Add new comment