خلاصہ: عقل اور زبان کا باہمی تعلق اتنا گہرا ہے کہ ان کو صحیح مقام پر استعمال کرنے اور نہ کرنے کے بنیادی نتائج ہیں۔ حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی حدیث اور دیگر معصومین (علیہم السلام) کی احادیث کی روشنی میں اس عنوان پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان کا دوسرے لوگوں سے رابطہ قائم کرنے، ایک دوسرے کو اطلاع دینے اور تبادلہ خیال کرنے کے لئے جسم کا سب سے زیادہ سرگرم عمل حصہ، زبان ہے۔ اگر زبان کو صحیح موقع اور درست بات کے لئے استعمال نہ کیا جائے تو زبان دیگر اعضاء سے بڑھ کر انسان پر حکمرانی کرتی ہے، مگر جب اسے اسلامی تعلیمات کے مطابق استعمال کیا جائے، ناپ تول کر اور سوچ سمجھ کر بات کی جائے تو انسان رفتہ رفتہ اپنی زبان پر قابو پاجائے گا، اور نہ بیجا کلام کرے گا، نہ زیادہ بولنے کی وجہ سے فضول باتیں کرے گا اور نہ حد سے زیادہ خاموشی کی وجہ سے حق کو چھپائے گا، بلکہ جہاں بولنے کی ضرورت نہیں وہاں خاموش رہے گا اور جہاں بولنے کی ضرورت ہے وہاں ضرور اور ٹھیک ٹھیک بات کرے گا۔ سوچے بغیر بولنے کا نقصان اور سوچ کر بولنے کا فائدہ اور اہمیت اسقدر زیادہ ہے کہ حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "قَلبُ الأحمَقِ في فَمِهِ وفَمُ الحَكيمِ في قَلبِهِ"[1]،" بیوقوف کا دل (عقل) اس کے منہ میں ہے اور حکیم (عقلمند) کا منہ اس کے دل (عقل) میں ہے"۔ یہی حدیث دوسرے لفظوں میں حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے بھی ارشاد فرمائی ہے: "لِسَانُ الْعَاقِلِ وَرَاءَ قَلْبِهِ، وَقَلْبُ الْأَحْمَقِ وَرَاءَ لِسَانِهِ"[2]، "عاقل کی زبان اس کے دل (عقل) کے پیچھے ہوتی ہے اور بیوقوف کا دل (عقل) اس کی زبان کے پیچھے ہوتا ہے"۔ عقلمند انسان پہلے اپنی بات کے بارے میں غور کرتا ہے، اس کے فائدوں اور نقصانات کی چھان بین کرتا ہے، تب بولنا شروع کرتا ہے، لیکن بیوقوف شخص پہلے بات کردیتا ہے اور اس کے بعد اس کے نقصانات کے بارے میں سوچتا ہے، لہذا عقلمند کم ہی غلطی میں پڑتا ہے اور بیوقوف کم ہی صحیح راستہ پر چلتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غور و خوض کرنے سے انسان کی روح اور عقل روشن ہوجاتی ہے اور انسان اس روشنی کے ذریعے سے حق اور باطل، صحیح اور غلط کو پہچان لیتا ہے، جبکہ بیوقوف، جہالت کے اندھیروں میں سرگرداں رہتا ہے۔ اسی لیے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "مَن فَكَّرَ أبصَرَ العَواقِبَ"[3]، "جو شخص غور کرے، انجاموں کو دیکھ لیتا ہے" اور حضرت امام حسن (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "عَلَيْكُمْ بِالْفِكْرِ فَانَّهُ حَياةُ قَلْبِ الْبَصيرِ وَ مَفاتيحُ ابْوابِ الْحِكْمَةِ"[4]، "غور کرو، کیونکہ غور کرنا، بصیرت والے دل کی حیات ہے اور حکمت کے دروازوں کی کنجی ہے"۔ لہذا عقلمند اور بیوقوف کے درمیان زبان کے استعمال کے لحاظ سے بڑا فرق غور کرنے اور نہ کرنے کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ عقل اور زبان کا باہمی تعلق اتنا گہرا ہے کہ امیربیان امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "يَسْتَدَلُّ عَلى عَقْلِ كُلِّ امْرِءٍ بِما يَجْرى عَلى لِسانِهِ [5]"، "ہر آدمی کی زبان پر جاری ہونے والی باتیں اس کی عقل (کی مقدار) پر دلیل ہیں"۔ زبان، انسانی جسم کا ایسا حصہ ہے جس کو استعمال کرنے کے لئے کوئی زحمت و مشقت نہیں ہوتی اور بولتے بولتے ہرگز اسے تھکن یا درد محسوس نہیں ہوتی، اسی لیے انسان بلاوجہ اور ضرورت کے بغیر بہت ساری باتیں کرتا رہتا ہے یا ایسے سوال پوچھتا ہے جن کو جاننے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی نہ جاننے سے اس کا کوئی نقصان ہوجائے گا۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ہماری باتیں، ہمارے اعمال کا حصہ ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد الہی ہے: "مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ[6]"، "وہ کوئی لفظ بھی نہیں بولتا مگر یہ کہ اس کے پاس نگران تیار موجود ہوتا ہے"۔ لہذا انسان کو غور سے بات کرنا چاہیے کیونکہ اس کی باتیں لکھی جارہی ہیں۔ زبان، اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے یہاں تک کہ اس نعمت کا ذکر اللہ نے اپنے لاریب کلام میں کردیا ہے جہاں فرمایا: " أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ.وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ[7]"، " کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں نہیں قرار دی ہیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ بھی"۔ اس نعمت کو صحیح استعمال کرنے کے لئے، گفتگو کے کچھ طریقے بھی بتائے ہیں: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا[8]"، "ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کرو"۔ اللہ تعالی نے جب حضرت موسی اور ہارون (علیہما السلام) کو فرعون کی ہدایت کے لئے بھیجا تو ان دو حضرات سے فرمایا:"فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ[9]"، "اس سے نرمی سے بات کرنا کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا خوف زدہ ہوجائے"۔ والدین سے بات کرنے کا طریقہ یہ بتایا ہے: "وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا[10]"، "اور ان سے احترام کے ساتھ بات کرو"۔ "وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا[11]"، "اور لوگوں سے اچھی باتیں کرنا"۔ زبان ایسی چیز ہے جس کے فائدے بھی بہت زیادہ ہیں اور نقصانات بھی، خوبیاں بھی بہت ہیں اور خامیاں بھی، اچھے اثرات بھی ڈالتی ہے اور برے اثرات بھی، لوگوں کے درمیان صلح کا باعث بھی ہے اور جھگڑے کا باعث بھی، ذکر پروردگار کے لئے بھی استعمال کی جاسکتی ہے اور جھوٹ، غیبت، الزام، چغلخوری اور گالی گلوچ وغیرہ کے لئے بھی، مختصراً اس سے خالقِ کائنات کی اطاعت و فرمانبرداری بھی کی جاسکتی ہے اور عصیان و نافرمانی بھی۔ جسم کے دیگر اعضاء گناہ کرنے کے لحاظ سے محدود ہیں اور ان سے جو گناہ سرزد ہوسکتے ہیں ان کی تعداد کم ہے، مگر زبان، انسان کے بدن کا ایسا حصہ ہے جو چھپا رہتا ہے اور اکثر گناہوں کا سبب بھی یہی ہے، لہذا اس کے اثرات کی حدیں بہت وسیع ہیں یہاں تک کہ انسان حدوں کو سن کر تعجب زدہ ہوجاتا ہے کہ اتنا چھوٹا سا ٹکڑا اور اتنے بڑے بڑے اور زیادہ گناہوں کا سبب! پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: "ان اکثر خطایا ابن آدم من لسانه[12]"، "فرزند آدم کی اکثر خطائیں، اس کی زبان سے ہیں"۔ اگر زبان کے ذریعے ہونے والے گناہوں کو شمار کیا جائے تو بیسیوں گناہوں کا ارتکاب اسی زبان کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ اسی لیے اگر اس پر انسان قابو پالے تو کتنی دنیا و آخرت کی مصیبتوں اور عذابوں سے محفوظ رہ کر پاک و پاکیزہ زندگی بسر کرسکتا ہے اور اگر انسان اسے بے لگام چھوڑ دے تو نہایت بھیانک مصیبتوں کا شکار بن کر رہ جائے گا۔ گھریلو، معاشرتی اور ملکی سطح پر کون سے اختلافات، تنازعات، لڑائی جھگڑے پڑتے ہیں جن میں زبان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا؟! یقیناً کم ہی کوئی ایسا جھگڑا ملے گا جس میں زبان کی مداخلت نہ ہو، جبکہ جسم کے دوسرے اعضاء کا جھگڑوں میں اتنا حصہ نہیں ہوتا جتنا زبان کا بڑھ چڑھ کر حصہ ہوتا ہے۔ لہذا اکثر خاموشی اختیار کرنا بہتر ہوتا ہے۔ روایات میں خاموشی کے بہت سارے فائدے بتائے گئے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: "إذا رَأَیْتُمُ المُؤمِنَ صَموتاً فَأدْنوا مِنْهُ فإنَّه یُلْقىِ الْحِکْمَةَ وَالْمُؤمِنُ قَلیلُ الکَلامِ کَثِیرُ العَمَلِ وَالمُنافِقُ کَثِیرُ الکَلامِ قَلِیلُ العَمَلِ [13]"، "جب تم لوگ مومن کو خاموشی کی حالت میں دیکھو تو اس کے قریب ہوجاو کہ وہ (آپ کو) حکمت دے گا، اور مومن تھوڑا بولتا ہے زیادہ عمل کرتا ہے اور منافق زیادہ بولتا ہے تھوڑا عمل کرتا ہے"۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب ابوذر ؒ کو جو نصیحتیں فرمائیں، ان میں ایک نصیحت یہ تھی: "ارْبَعٌ لا یُصِیبُهُنَّ إلّا مُؤْمِنٌ، الصَّمْتُ و هُو أوَّلُ العِبادَةِ[14]"، "چار چیزیں ہیں جو صرف مومن کو نصیب ہوتی ہیں: خاموشی جو عبادت کا آغاز ہے"۔ زیادہ باتیں کرنا قساوت اور سنگدلی کا باعث بنتی ہے۔ حضرت امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "کانَ المَسیحُ علیهالسلام یقولُ: لاتُکْثِرِ الکَلامَ فى غَیرِ ذِکْرِاللَّه فانَّ الَّذِینَ یُکْثِرونَ الکلامَ فی غَیرِاللَّهِ قاسِیَةٌ قُلُوبُهُم ولکِنْ لایَعْلَمونَ [15]"، "حضرت مسیح فرمایا کرتے تھے: اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ بات نہ کرو کیونکہ جو لوگ اللہ کے علاوہ کے بارے میں زیادہ باتیں کرتے ہیں، ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں لیکن جانتے نہیں ہیں"۔ حضرت علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "انَ الصّمْتَ بابٌ مِنْ أبوابِ الحِکْمَةِ، انَّ الصَمْتَ یُکْسِبُ المَحَبَّة انَّهُ دلیلٌ على کُلِّ خَیرٍ [16]"، "یقیناً خاموشی، حکمت (دانائی) کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، بیشک خاموشی محبت لاتی ہے، وہ ہر نیکی کی راہنما ہے"۔
نتیجہ: عقل اور زبان کا باہمی تعلق اتنا گہرا ہے کہ عقلمند اور بیوقوف کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔ یعنی جو شخص سوچ کر بولے وہ عقلمندی سے کام لیتا ہے اور جو غور کیے بغیر بات کردے، یہ اس کی بیوقوفی پر دلیل ہے۔ روایات زیادہ بولنے سے منع کرتی ہیں اور کم بولنے کی رغبت دلاتی ہیں.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج75، ص374۔
[2] نہج البلاغہ، حکمت 40۔
[3] غرر الحكم : ج5 ص 324 ح 8577 ، عيون الحكم والمواعظ : ص 459 ح 8316۔
[4] بحار الأنوار : ج 78 ص 115 ح 12۔ أعلام الدين : ص 297۔
[5] غررالحكم، ص 209، ح 4033۔
[6] سورہ ق، آیت 18۔
[7] سورہ بلد، آیات 8، 9۔
[8] سورہ احزاب، آیت 70۔
[9] سورہ طہ، آیت 44۔
[10] سورہ اسراء، آیت 23۔
[11] سورہ بقرہ، آیت 83۔
[12] نهج الفصاحة، حدیث 5081۔ احياء العلوم، ج3، ص 108ـ162۔
[13] مستدرك الوسائل، محدث نوری، ج9، ص18۔
[14] ميزان الحكمہ، محمدی ری شہری، ج۶، ص354۔
[15] اصول كافى، ج 2، باب الصمت و حفظ السان، ح 11۔
[16] اصول كافى، ج 2، باب الصمت و حفظ السان، ح 1۔
Add new comment