خلاصہ: اللہ تعالی کے اتنے صفات میں سے بسم اللہ میں صرف رحمانیت اور رحیمیت کا تذکرہ ہوا ہے۔ ادھر سے کاموں کو بسم اللہ سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے، تو کاموں کو شروع کرنے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کا باہمی تعلق کیا ہوسکتا ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے اتنے صفات میں سے بسم اللہ میں اللہ کے صفاتِ رحمت کا کیوں تذکرہ ہوا ہے؟
اللہ کی رحمت نے ہر چیز کو گھیرا ہوا ہے۔ سورہ اعراف کی آیت 156 میں ارشاد الٰہی ہے: "وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ"، " اور میری رحمت (کا یہ حال ہے کہ وہ) ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے"۔ نیز سورہ غافر کی آیت 7 میں عرش کو اٹھانے والوں کی زبانی بیان ہوا ہے: "رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْماً"، "اے ہمارے پروردگار تو اپنی رحمت اور اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے"۔
انبیاء (علیہم السلام) مشکلات اور دشمنوں کے خطروں سے، اللہ کی رحمت کے ذریعے نجات پاتے تھے۔ سورہ یونس کی آیت 86 میں حضرت موسی (علیہ السلام) کی قوم نے فرعونیوں سے نجات پانے کے لئے عرض کیا: "وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ"، "اور ہمیں اپنی رحمت سے ظالموں (کے پنجۂ ظلم) سے نجات عطا فرما"۔
حضرت ہود، حضرت صالح اور حضرت شعیب (علیہم السلام) اور ان حضراتؑ کے ساتھ ایمان لانے والوں کو نجات دینے کا جب سورہ ہود کی الگ الگ آیات میں تذکرہ ہوا ہے تو ان تینوں گروہوں کے لئے "بِرَحْمَةٍ مِّنَّا" کے لفظ ذکر ہوئے ہیں۔ لہذا اللہ نے ان تینوں گروہوں کو اپنی رحمت سے بچایا ہے۔
بنابریں کاموں کو انجام تک پہنچانے اور مشکلات پر غالب ہونے کے لئے صفتِ رحمت سے بڑھ کر اور کون سی صفت مناسب ہے؟! اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر اس طرح سے گھیرا ڈالے ہوئے ہے کہ اس سے کوئی چیز بھی نہ بے نیاز ہے اور نہ بے نصیب ہے۔ ہم بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر اپنے کاموں کو اللہ کی رحمت کے بدولت شروع کرکے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
آیات کا ترجمہ از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment