خلاصہ: زیارت جامعہ کبیرہ کی تشریح کرتے ہوئے "مھبط الوحی" کے فقرے کے سلسلہ میں ھبوط کے لغوی معنی اور ھبوط کے بارے میں چند نکات بیان کیے جارہے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
زیارت جامعہ کبیرہ میں حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ يا اَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ، وَ مَوْضِعَ الرِّسالَةِ، وَ مُخْتَلَفَ الْمَلائِكَةِ، وَ مَهْبِطَ الْوَحْى"، "آپ پر سلام ہو اے نبوت کا گھرانہ، اور رسالت کا مقام، اور ملائکہ کے آمد و رفت کا مقام، اور وحی کے اترنے کا مقام"۔
"مھبط" اسم مکان ہے "ھبوط" سے۔ "ھبوط" وہی نزول ہے۔ قرآن کریم نے بھی سورہ اعراف، آیت ۱۳ میں اس لفظ کو اسی معنی میں استعمال کیا ہے: "فَاهْبِطْ مِنْهَا"، "تو پھر تو یہاں سے نیچے اتر جا"۔
ھبوط کا نزول سے فرق یہ ہے کہ نزول میں مبدا سے جدا ہونا مدنظر ہوتا ہے اور اس کا کسی اور جگہ میں قرار پانا مدنظر نہیں ہوتا، جبکہ ھبوط میں مبدا سے جدا ہونے کے علاوہ اس کا قرار پانا بھی مدنظر ہوتا ہے۔
لہذا "مھبط الوحی" کا مطلب وہ جگہ ہے جہاں وحی مبدا سے نزول کے بعد، اُس جگہ پر قرار پاتی ہے، یعنی: "وحی کے قرار پانے کی جگہ اور مقام"۔
ھبوط کے لغوی معنی کے بارے میں چند غورطلب نکات:
۱۔ جس طرح نزول کبھی اوپر والی جگہ سے ہوتا ہے اور کبھی اوپر والے مقام سے ہوتا ہے، ھبوط بھی اسی طرح ہے۔
۲۔ ھبوط کبھی سزا اور عذاب دینے کے لئے ہوتا ہے، جیسے ابلیس کا ھبوط، اور کبھی خلافت اور نیابت دینے کے لئے ہوتا ہے، نہ کہ اللہ کے مقام قرب سے جلاوطن کرنے کے لئے، جیسے حضرت آدم (علیہ السلام) کا زمین پر ھبوط، جو کہ اللہ کے اجتبا اور اصطفاء کے ساتھ تھا۔
۳۔ ھبوط کبھی تجافی کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی تجلّی کی صورت میں اور وحی کا ھبوط تجلّی کے طور پر ہے نہ کہ تجافی کے طور پر۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: ادب فنای مقرّبان، آیت اللہ جوادی آملی]
Add new comment