خلاصہ: زیارت جامعہ کبیرہ کے پہلے فقرے میں سے لفظ النُّبُوَّةِ کے سلسلہ میں تشریح بیان کی جارہی ہے کہ اھل بیت النبوۃ اور اھل بیت النّبی میں کیا فرق ہے۔
زیارت جامعہ کبیرہ میں حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ يا اَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ"، "آپ پر سلام ہو اے نبوت کا گھرانہ"۔
بعض اہل معرفت کا کہنا ہے کہ اس زیارت میں جو فضائل و مناقب بیان ہوئے ہیں، سب اسی فقرے میں پائے جاتے ہیں اور درحقیقت یہ فقرہ امّ الفضائل ہے، کیونکہ مخلوقات کے سب کمالات، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے نورِ نبوّت کے ماتحت ہیں اور بیتِ نبوت سب انسانی شرافتوں اور کرامتوں کا سرچشمہ ہے، لہذا جو اس بیت کے اہل اور گھروالے ہیں، تمام اعلیٰ مکارم اور فضائل کے حامل ہیں۔
اس فقرے میں یہ ظریف نکتہ غورطلب ہے کہ ارشاد ہورہا ہے: "اَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ"، "نبوّت کا گھرانہ"، یہ نہیں فرمایا: "اَهْلَ بَيْتِ النَّبیّ"، "نبیؐ کا گھرانہ"، یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ "بیتُ النبوَّۃ" اور "بیتُ النّبیّ" میں فرق ہے۔ کیونکہ "بیتُ النّبیّ" یعنی نبیؐ کا گھر، وہی گھر ہے جو مٹی، پانی، پتھر، لکڑی سے بنا ہوا تھا جو مکہ میں رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی پیدائش گاہ تھی اور مدینہ میں آپؐ کا گھر اور قبر مبارک تھی، البتہ یہ گھر بھی اس لیے کہ آپؐ کی پیدائش، رہائش اور دفن کی جگہیں ہیں تو لائق احترام اور تعظیم ہیں، مگر "بیتُ النبوَّۃ" پتھر، لکڑی، پانی اور مٹی والا گھر نہیں ہے، بلکہ وہ، نبوّتِ ختمیہ کی اعلیٰ حقیقت ہے، اللہ کے اسماء و صفات کی تجلّی گاہ ہے، حضرت روح الامین اور مقرب فرشتوں کے نزول اور صعود کی جگہ ہے، سب انبیاء (علیہم السلام) کی نبوّت، اس اعلیٰ حقیقت اور امّ الحقائق کے مراتب اور شئون میں سے ہے اور اس "بیت" کے "اھل" حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام)، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اور سیدا شباب اھل الجنۃ اور باقی ائمہ اطہار (علیہم السلام) ہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
[ماخوذ از: صفیر ولایت، شرح زیارت جامعہ کبیرہ، آیت اللہ ضیاء آبادی]
Add new comment